ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری کا انتباہ
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے کہا ہے کہ معاہدوں پرعمل درآمد میں یورپ کی ناتوانی یا دیگر موضوعات میں ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے موضوع سے ناجائزہ فائدہ اٹھانے کا یقین ہوجائےگا تو تہران اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے گا-
ایٹمی سمجھوتے میں پیش آنے والے امکانات اور یورپ کے رویّے کے بارے میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کے سیکریٹری کے بیانات ان ریڈلائنوں پر ایران کی تاکید ہیں کہ جو تہران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے میں باقی رہنے کے سلسلے میں بغیر سیاسی تحفظات کے کھل کر اعلان کر دی گئی ہیں-
ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں اس وقت دوامکانات پائے جاتے ہیں- پہلا امکان یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے تناظر میں ایٹمی سمجھوتے کو جاری رکھا جائے یا ایٹمی سمجھوتے سے باہر کے کسی عنصر کے شامل ہوئے بغیر ایران کے لئے ایٹمی سمجھوتے سے حاصل ہونے والے مفادات کی ضمانت کے لئے ایران و یورپ کے درمیان مذاکرات کئے جائیں - یورپ کواس راستے پرگامزن ہونے کے لئے ایٹمی سمجھوتے میں شامل وعدوں پرعمل کی غرض سے سیاسی و اقتصادی خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے-
اور دوسرا امکان یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یورپ ، امریکی دباؤ کے سامنے ایٹمی سمجھوتے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل نہ کر سکے یا ایٹمی سمجھوتے میں پیش آنے والی نئی صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے کہ جس کی طرف ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے کھل کر اشارہ کیا ہے-
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کے بغیر ایٹمی سمجھوتے کو نئی صورت حال کا سامنا ہے جو دو امکانات سے براہ راست مربوط ہے- یہ نئی صورت حال سیاسی و اقتصادی عناصر اور ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی کے آئین و قوانین کے تناظر میں ایران کے جائز حقوق کی حامل ہے- ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی ایک نگراں ادارے کی حیثیت سے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی متعدد بار تائید و تصدیق کرچکا ہے-
اسی تناظر میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے یورے نیم کی افزودگی کے حق کو تسلیم کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ : بین الاقوامی معاہدے کی بنیاد پر ایٹمی سمجھوتے میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے کا طریقہ کار معین کیا گیا ہے اور ایٹمی مذاکرات کی فائل بند ہونے کے بعد کسی بھی حالت میں دوبارہ کھولی نہیں جائے گی لیکن سیاسی لحاظ سے وہ مسئلہ کہ جو ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کا بہانہ بنا اور جس کی طرف امریکی صدرٹرمپ اور وزیرخارجہ پمپئو کے پست بیانات میں اشارہ کیا گیا وہ ایران کا میزائلی پروگرام اور علاقے میں اس کا اثر و نفوذ ہے-
امریکی وزیرخارجہ پمپیئو نے پیر کو بے بنیاد الزامات سے بھرپور اپنے بیانات میں کہا کہ امریکہ ایٹمی سمجھوتے سے نکلنے کے بعد علاقے میں تہران کا اثرو نفوذ روکنے، ایرن پر دباؤ بڑھانے ، اس کا ایٹمی و میزائلی پروگرام بند کرنے اور اس پر ایسی سخت پابندیاں لگانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی-
ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے امریکی وزیرخارجہ کے اس پست ، توہین آمیز اور مداخلت پسندانہ بیان کے جواب میں کہا کہ امریکی حکومت کہ جو گنتی کی چند حقیر و معمولی حکومتوں کے سوا دنیا بھر کے ملکوں کی مخالفتوں کے باوجود تمام سیاسی قانونی اور بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کررہی ہے ، اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ایران جیسے بڑے ملک کے لئے کہ جو اپنے معاہدے کا پابند رہا ہے، شرط معین کرے-
یورپ کے بارے میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری شمخانی کے انتباہ کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہئے کیونکہ امریکہ کے بغیر ایٹمی سمجھوتے کی متغیرصورت حال میں یورپ کی جانب سے بھی امریکی تجربہ دہرائے جانے کا امکان خلاف توقع نہیں ہے-