میانمار کے پناہ گزینوں کے پہلے گروہ کی بنگلادیش سے میانمار واپسی
میانمار کے صوبہ راخین میں تشدد کے سبب بنگلادیش فرار کرنے والے باسٹھ افراد پر مشتمل ایک گروپ اپنے ملک میانمار واپس لوٹ گیا ہے-
یہ افراد میانمار میں داخل ہونے کے بعد ایک کیمپ میں منتقل کردیئے گئے ہیں- میانمار اور بنگلادیش کے درمیان روہنگیا کے پناہ گزینوں کی واپسی سے متعلق ایک سمجھوتے پر دستخط کئے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ واپسی عمل میں آئی ہے-
عالمی میڈیا کے مطابق یہ معاہدہ میانمار کے دارالحکومت نیپیدو میں طے پایا تھا تاہم معاہدے کی تفصیلات میڈیا کو جاری نہیں کی گئی تھیں- بنگلادیش کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ مہاجرین کی واپسی کا پہلا مرحلہ ہے جب کہ میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو جلد از جلد واپس لانے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب عالمی امدادی اداروں نے روہنگیا مسلمانوں کی اس طرح سے واپسی کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں ان کے ساتھ دوبارہ ظلم نہیں کیا جائے گا؟ اس بات کی ضمانت کے بغیر ان کی واپسی پر ہمیں تحفظات ہیں۔
حال ہی میں روہنگیا مسلمانوں سے وابستہ تنظیموں اور بین الاقوامی حلقوں اور اداروں منجملہ اقوام متحدہ نے روہنگیا پناہ گزینوں کی میانمار واپسی کی مخالفت کی ہے- کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ ابھی روہنگیا کے پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کے لئے حالات فراہم نہیں ہیں- روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا کر خاکستر کردیا گیا ہے اور ان کے گھر اور کاشانوں پر انتہا پسند بودھشٹوں نے قبضہ کرلیا ہے اسی سبب سے میانمار لوٹنے والے افراد کو کیمپوں میں رہنے کی جگہ دی گئی ہے-
اس کے علاوہ میانمار واپس لوٹنے والے ان مسلمانوں کی ایک سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس ملک کی حکومت ان کو حق شہریت دیئے جانے کی مخالف ہے- اس بناء پر جب تک کہ میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کا حق شہریت تسلیم نہیں کرتی اور اس کی موافقت نہیں کرتی انتہاپسند بودھسٹوں اور فوجیوں کی ایذاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا- روہنگیا کے چالیس دیہی علاقوں پر مشتمل مسلم اکابرین نے، کہ جو بنگلادیش کے کیمپوں میں مقیم ہیں، اعلان کیا ہے کہ وہ اسی وقت میانمار لوٹیں گے کہ جب اس ملک کی حکومت سرکاری طور پر یہ اعلان کرے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کی اقلیت بھی میانمار کی جملہ اقوام میں شامل ہے اور وہ روہنگیا مسلمانوں کو مکمل شہری حقوق دے- اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کے گھر، ان کے کام کی جگہ، اور ان سے متعلق وہ تمام زمینیں واپس کرے کہ جن پر انتہا پسند بودھسٹوں نے قبضہ کرلیا ہے-
اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کی ایجنسی کے ترجمان کہتے ہیں کہ اس وقت میانمار کے صوبہ راخین میں پناہ گزینوں کی واپسی اور پر امن زندگی کے لئے حالات فراہم نہیں ہیں- ہم ابھی بھی اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پناہ گزیں اس وقت بھی تشدد کے سبب فرار کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد بدترین تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں- کیمپوں میں روہنگیا کے پناہ گزیں مسلمانوں کی بہت سی مشکلات منجملہ ان کے کھانے پینے کی مشکلات اور انواع و اقسام کی بیماریوں کے پھیلنے کے پیش نظر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان افراد کی جلد از جلد ان کے رہائشی مقامات کی جانب واپسی لازم اور ضروری ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے میانمار حکومت کے توسط سے یہ باسٹھ افراد کی میانمار واپسی ایک نمائشی اور نام نہاد انسان دوستانہ اقدام ہے- یہ افراد بھی جو میانمار واپس لوٹے ہیں انہیں وہاں بھی کیمپوں میں ہی رکھا گیا ہے جبکہ روہنگیا کے مسلمان ، اپنے دیہاتوں اور شہروں میں جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں-
سیاسی مسائل کے ماہر میرزا فخرالاسلام کہتے ہیں روہنگیا کے مسلمانوں کو صوبہ راخین لوٹانا درحقیقت ان کو درندہ جانوروں کے منھ میں ڈالنے کے مترادف ہے- اہم سوال یہی ہے کہ انہیں کہاں بھیجا جا رہا ہے؟ ان ہی درندوں کے درمیان کے جہاں سے وہ فرار کرکے گئے ہیں؟ روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کسی بھی طور ان کی سلامتی کی ضامن نہیں ہے-
بہرصورت میانمار حکومت کی کوشش ہے کہ روہنگیا کے باسٹھ پناہ گزیں مسلمانوں کو واپس لانے کی تشہیر کرکے، خود پر ڈالے جانے والے علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ میں کمی لائے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ میانمار کی پارلیمنٹ میں روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کے بارے میں ٹھوس اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور بعض ممبران پارلیمنٹ یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے درمیان غیر ملکی افراد گھس آئے ہیں، اس کوشش میں ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے آباء و اجداد کی سرزمین پر واپس جانے میں رکاوٹ بن جائیں-
واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر میانمار (برما) میں کئی دہائیوں سے ظلم جاری ہے، وہ برما کی ریاست راخین میں آباد ہیں تاہم برما میں آباد بدھ مت کے ماننے والے انہیں برما کا شہری تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
میانمارکی فوج نے بڑے پیمانے پر آپریشن کرتے ہوئے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جب کہ 6 لاکھ سے زائد مسلمان بے گھر ہوکر بنگلادیشی سرحد کے نزدیک بنے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔