امریکی ایما پر فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں میں شدت
گذشتہ تیرہ ہفتوں سے فلسطینی عوام وطن واپسی مارچ کے ذریعے اپنے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اسی تناظر میں کل جمعے کو بھی زخمیوں سے وفاداری کے عنوان سے فلسطینیوں نے وطن واپسی مارچ نکالا جس پر صیہونی فوجیوں نے فائرنگ کرکے 206 فلسطینیوں کو زخمی کردیا-
وطن واپسی مارچ میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک سو چالیس سے زیادہ ہوگئی ہے اور پندرہ ہزار سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔
صیہونی فوجیوں نے صرف چودہ مئی کو کہ جس دن یوم نکبہ منایا جا رہا تھا اور امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا، پرامن مظاہرے میں شریک پینسٹھ فلسطینیوں کو گولی مار کر شہید کر دیا تھا- اسرائیلی فوج ، فلسطینیوں کے پرامن مظاہرے کو کچلنے کے لئے براہ راست گولیوں کا استعمال کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود نہ فقط عالمی ادارے خاموش ہیں بلکہ امریکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔
اس درمیان صیہونی فوجیوں نے غرب اردن میں فلسطینیوں کے گھر پر حملہ کر کے جمعرات کو سترہ فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کر لیا- اس موقع پر فلسطینیوں اور صیہونی فوجیوں کے درمیان شدید جھڑپیں بھی ہوئیں-
وطن واپسی مارچ کا آغاز، فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر مشارکت سے رواں سال تیس مارچ سے ہوا ہے اور غزہ کے باشندے ہر جمعے کو ان مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں اور فلسطینی پناہ گزینوں کے وطن واپسی کے حق پر تاکید کرتے ہیں- وطن واپسی مارچ، کہ جو صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نئی تحریک انتفاضہ کی لہر کے مترادف اور فلسطین کے تعلق سے امریکی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے ہے، صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے لئے بہت زیادہ تشویش کا باعث بنا ہے- اخبار رای الیوم کی ویب سائٹ نے کچھ عرصہ قبل ایک مقالے میں، " وطن واپسی کے مظاہروں سے صیہونیوں میں وحشت" کے عنوان سے لکھا تھا کہ صیہونی فوجیوں کی کوشش ہے کہ فلسطینی مظاہرین کو خاک و خون میں غلطاں کرکے ان کی مزاحمت کو ختم کردیں لیکن فلسطینی مسلمانوں نے وطن واپسی مارچ کے ذریعے ، فلسطینیوں کی امنگوں کو عالمی مسائل میں سرفہرست قرار دے دیا ہے-
فلسطین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ میں شدت، فلسطینی عوام کی تاریخ جدو جہد میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور غاصب حکومت کے مقابلے میں فلسطینیوں کی جدوجہد، ان کی حقانیت پرعالمی برادری کی مزید توجہ مرکوز ہونے کا باعث بنی ہے- یہ مسئلہ اسرائیل اور اس کے اصلی حامی یعنی امریکہ کی ناکامیوں کا غماز ہے کہ جو مختلف طریقوں منجملہ مشرق وسطی کو مختلف فتنوں اور سازشوں میں الجھاکر اور مختلف پروپگنڈوں کے ذریعے، علاقے خاص طور پر فلسطینی سرزمین پر صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضوں کو مستحکم کرنے کے درپے ہے۔ ایسے ماحول میں صیہونی حکومت، فلسطینی عوام کے پرامن مظاہروں کو سختی سے کچل کر، ان میں رعب و دہشت پھیلانے اور ان کے احتجاج کو دبانے میں کوشاں ہے۔
فلسطین کے مسئلے کو حذف کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کو مکمل طور پر پامال کرنے کے مقصد سے، سنچری ڈیل سے موسوم ٹرمپ کے سازشی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئےعلاقے میں امریکی وفد کی آمد کے ساتھ ہی، اسرائیل کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں اضافے کے لئے ہری جھنڈی دکھائی ہے۔ باوجودیکہ اسرائیلی تشدد میں اضافے نے فلسطینیوں کے لئے سخت حالات پیدا کردیئے ہیں لیکن اسرائیل کے یہ اقدامات، اس کی تسلط پسندیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی پائیداری جاری رہنے میں مانع نہیں بن سکے ہیں- زخمیوں سے وفاداری سے موسوم جمعے کو فلسطینیوں نے وطن واپسی کے مظاہروں میں وسیع پیمانے پر شرکت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ فلسطینیوں کو ڈرانے دھمکانے کی صیہونی غاصبین کی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے اور فلسطینی بدستور غاصبانہ قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد کو، مکمل آزادی کے حصول تک جاری رکھیں گے- فلسطینیوں کے وطن واپسی کے مظاہرے جاری رہنے سے، مسئلہ فلسطین کو کنارے لگانے کے امریکی منصوبوں پر عملدرآمد کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور یہ مظاہرے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے اس پیغام کے حامل ہیں کہ فلسطینی عوام امریکہ کے تمام سازشی منصوبوں کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی ان کو حقوق کو پامال کرے-