ترکی کے صدارتی عہدے پر اردوغان کا دوبارہ قبضہ
ترکی کے چونسٹھ سالہ صدر رجب طیب اردوغان نے ایک بار پھر بھاری اکثریت سے ملک کا صدارتی الیکشن جیت لیا۔
ترکی کے الیکشن کمیشن کے سربراہ سعدی گوون نے سرکاری طور پر صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردوغان کی کامیابی کا اعلان کیا- سعدی گوون نے کہا کہ ستانوے اعشاریہ سات فیصد ووٹوں کی گنتی کی بنیاد پراردوغان کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں-
اردوغان کی سیاسی غلطیوں، اقتصادی پالیسیوں، بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے عوام کے تنگ ہونے ،غیرملکی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کے لئے ترکی میں پرکشش مواقع ختم ہونے اور پیداوار کے بجائے رانت سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی کے باوجود ایک بار پھرصدارتی منصب کے لئے اردوغان کا انتخاب کافی اہمیت کا حامل ہے- بہرحال یہ کہنا چاہئے کہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے پہلے تک موجود کافی نشیب و فراز کے باوجود ترکی اپنی تاریخ کے ایک اہم دور سے گذر رہا ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی میں چوبیس جون کو ہونے والے قبل از وقت انتخابات کہ جو معینہ تاریخ سے اٹھارہ ماہ پہلے منعقد ہوئے ہیں ترکی کی تاریخ میں ایک موڑ سے تعبیر کئے جائیں گے خاص طور پر ایسی حالت میں کہ جب بعض تبدیل شدہ و اصلاح شدہ آئین اس ملک کو ایسے حالات سے دوچار کردیں گے جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی- درحقیقت ترکی کے صدارتی انتخابات ختم ہونے کے ساتھ ہی ترکی سرکاری طور پر پارلیمانی نظام سے باہر نکل کر صدارتی نظام کا حامل ملک بن گیا ہے اور آئین میں اصلاح کے پیش نظر عدلیہ ، آئینی عدالت اور اس جیسے دیگر اداروں سمیت ملک کے اکثر کلیدی اداروں کے اراکین کو صدرمملکت معین کرے گا اور یہ امرطیب اردوغان کو یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ ترکی کے بنیادی اور اصلی اداروں میں ہماہنگی پیدا کرکے اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں- ملک کے اندر پائی جانے والی تشویش اور آئندہ برسوں میں اردوغان کی کارکردگی کی مخالف و حامی پارٹیوں کے موقف سے قطع نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغرب میں ترکی کے بعض اتحادی خاص طور سے امریکہ اور نیٹو، مشرق وسطی میں سرگرم اس ملک کے ساتھ آئندہ کے اختلافات پرسخت تشویش میں مبتلا ہیں- اس سلسلے میں محترمہ الیزابتھ تئومان نے فاکس نیوز میں اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ آئین میں نئی اصلاحات کے نتیجے میں اردوغان علاقے میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لئے مزید شدت سے علاقے کے دیگر بازیگروں کے نقصان میں اپنے منصوبوں پر عمل کریں گے اور کم سے کم دوہزار اٹھائیس تک برسراقتدار رہیں گے اور یہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ ترکی کی شراکت داری میں اختلاف پیدا ہونے کا باعث ہوگا-
درحقیقت ترکی کے نئے آئین سے صدر کو مزید اختیارات مل جائیں گے اور اسی وجہ سے مغربی حکومتیں کہ جن کے مفادات گذشتہ چند برسوں سے ترکی کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں، آئندہ کے تعلقات اور علاقے میں اپنی موجودگی پرفکرمند ہوں گی-
مجموعی طور پر یہ کہنا چاہئے کہ طیب اردوغان کے دوبارہ انتخابات سے مجموعی طور پردو صورت حال قابل تصور ہے- پہلی یہ کہ مغرب ، اردوغان کو متعدد مراعات دینے پرمجبور ہوگا یا مغرب کے ساتھ ترکی کے اختلافات پہلے سے زیادہ بڑھ جائیں گے-