Jun ۲۶, ۲۰۱۸ ۱۷:۴۱ Asia/Tehran
  • منشیات کی پیداوار کے ٹھوس مقابلے پر افغان حکومت کی تاکید

افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کے چیف ایگزکٹیو عبداللہ عبداللہ نے اس ملک میں منشیات کی پیداوار کا ٹھوس مقابلہ کرنے پر تاکید کی ہے-

عبداللہ عبداللہ نے "منشیات کے خلاف قومی آمادگی" سے موسوم ہفتے کی مناسبت سے کابل میں منعقدہ ایک اجلاس میں اقوام متحدہ کے نمائندوں اور علاقے کے بعض ملکوں کے سفیروں کی موجودگی میں  پڑوسی ملکوں، علاقے کے ملکوں اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ افغانستان کے ساتھ  تعاون بڑھاتے ہوئے افغانستان میں منشیات سے مقابلے کے لئے اپنی مدد اور کوششیں جاری رکھیں- شائع ہونے والے اعداد شمار کے مطابق دنیا میں نوے فیصد افیون اور اسّی فیصد ہیروئن کی پیداوار افغانستان میں ہوتی ہے اور افیون کی پیداوار سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ افغانستان میں دہشت گرد اور تشدد پسند گروہوں کے مالی اخراجات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔  

 کہا جا رہا ہے کہ اس ملک میں منشیات کی تجارت سے طالبان گروہ کی ستر فیصد سے زیادہ مالی ضروریات پوری ہوتی ہیں- افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی تعداد میں اضافے سے اس ملک میں پوست کی کاشت والے علاقوں میں بھی ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور اس وقت تقریبا تین لاکھ پچاس ہزار ہیکٹر اراضی پر اس کی کاشت ہو رہی ہے- 

افغانستان میں انسداد منشیات کی وزارت کے سابق معاون " باز محمد احمدی " کہتے ہیں تیس فیصد افغانستان کی جنگ ، افیون کے مسئلے پر ہے۔ طالبان اور دہشت گردوں کے حامی منشیات کے مافیا گروپ، جنگ میں شدت لانے میں حصہ دار ہیں- وہ مختلف طریقوں سے مثال کے طور پر کسانوں کو پوست کی کاشت پر مجبور کرکے اور منشیات کی لیبارٹریز قائم کرکے، منشیات کی پیداوار اور اپنی آمدنی میں اضافے کا باعث بنے ہیں- 

افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے کے سبب، اس ملک کے جوانوں خاص طور پر عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس میں آلودہ ہوچکی ہے- افغان حکومت کی جانب سے اعلان شدہ اعداد وشمار کے مطابق اس ملک کے تیس لاکھ سے زائد افراد منیشات کے عادی ہیں اور اس تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے- 

یہ ایسی حالت میں ہے کہ ماضی میں افغانستان میں کوئی بھی منشیات کا عادی نہیں تھا - افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے اور ان کو اس سے باز رکھنے کے سلسلے میں کابل حکومت کے کاندھوں پر بھاری خرچ عائد ہوتا ہے جو اس کے توان سے باہر ہے- 

پاکستان میں سیاسی مسائل کے ماہر محمد بشارت طاہر کہتے ہیں:

منشیات کی تجارت اور اس سے لاحق سیکورٹی و سماجی خطرات کو سنجیدہ لینا چاہئے اور دنیا میں اس کی فروخت پر روک تھام لگنی چاہئے- کیوں کہ جب تک کہ منشیات کی منڈی موجود رہے گی، منشیات کے خلاف افغان حکومت کے اقدامات کارساز نہیں ہوسکیں گے- 

بہرحال افغانستان میں منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ جاری رہنے سے علاقے کے ملکوں کی سیکورٹی کو بھی سماجی اور سلامتی کے لحاظ سے شدید خطرے لاحق ہیں- منشیات کے سوداگروں سے مقابلے کے لئے علاقائی اور عالمی تعاون کے ساتھ ہی، افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام بھی اس بات کا باعث بنے گا کہ اس ملک میں پوست کی کاشت اور منشیات کی پیداوار میں کمی آئے- اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ کرنا، مغربی حلقوں اور اس ملک میں غاصبوں کی سازش ہے تاکہ افغانستان کی آئندہ نسل کو نابود کردیں اور اس ملک پر اپنا تسلط جاری رکھنے کا راستہ ہموار کریں- افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے کے تعلق سے امریکہ اور نیٹو کی بے توجہی سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان کو دہشت گردوں اور تشدد پسندوں کی مالی حمایت جاری رکھنے میں کوئی عار نہیں ہے-  

    

ٹیگس