اسرائیل کے لئے امریکی ایوان نمائندگان کی حمایت
امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والی امریکی کمپنیوں کو سزا دینے کے لئے ایک بل کی منظوری دی ہے۔ جس کی رو سے امریکی حکومت کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والی امریکی کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کرسکے اور ان کو سزا دے-
یہ بل ان امریکی کمپنیوں کو بھی شامل ہوگا کہ جو صہیونی حکومت کے بائیکاٹ کے لئے اقوام متحدہ یا یورپی یونین کی اپیل کی حمایت کریں - اس بل کی منظوری پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے- چنانچہ امریکہ کی شہری آزادیوں کی یونین نے، ایوان نمائندگان میں اس بل کی منظوری پر تنقید کرتے ہوئے اسے غیر قانونی کہا ہے اس لئے کہ یہ قانون، اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے شہریوں کے حقوق کے خطرے میں پڑنے کا باعث بنے گا-
اگرچہ عشروں سے فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارے رہے ہیں اور وہ صیہونی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں تاہم گذشتہ دنوں میں خاص طور پر یوم نکبت کے موقع پر نکالے جانے والے واپسی مارچ کے دوران اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں فلسطینیی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ یوم نکبت کے موقع پر ہی ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا۔ چنانچہ ٹرمپ حکومت کے اس اقدام اور اسرائیل کے لئے اس کی بڑھتی حمایت کے خلاف عالمی سطح پر اور امریکی معاشرے میں بھی وسیع پیمانے پر احتجاج کیا گیا- یہ صورتحال مختلف شعبوں خاص طور پر اقتصادی اور اسلحہ جاتی شعبوں میں اسرائیل کا وسیع پیمانے پر بائیکاٹ کرنے کا باعث بنی ہے-
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھی چوبیس مارچ 2016 کو ایک قرارداد کی منظوری دی تھی کہ جس میں ملکوں سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں موجود اپنی کمپنیوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ اپنے سرمائے وہاں سے باہر نکال لیں اور صیہونی حکومت کے ساتھ جو معاہدے کئے ہیں، انہیں منسوخ کردیں- صیہونی حکومت کی انسانیت سوز پالیسیاں، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والی عالمی تحریک بی ڈی ایس ( BDS) کے وجود میں آنے کا سبب بنیں- مقبوضہ فلسطین میں سرمایہ کاری کرنے اور اسرائیلی مصنوعات کی خریداری پر پابندی لگائے جانے کا مقصد، فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام کی حمایت کرنا ہے۔ بی ڈی ایس تحریک کا مقصد، فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر سے اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ختم کرانے اور اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کے لئے اس حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے-
واضح رہے کہ بی ڈی ایس کے نام سے اسرائیل میں سرمایہ کاری اور تجارتی لین دین کی مخالفت کرنے والی عالمی تحریک کا قیام نو جولائی دو ہزار پانچ میں عمل میں آیا تھا ۔ چودہ برس سے جاری اس تحریک نے امریکہ سمیت پوری دنیا میں کافی اثر و رسوخ حاصل کر لیا ہے اور بہت سے شہری اور تجارتی ادارے نیز یونیورسٹیاں اور تحقیقاتی ادارے بھی اسرائیل کے بائیکاٹ کی اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان اداروں اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی نسل پرست حکومت کے خلاف بھی ویسے ہی بائیکاٹ کی ضرورت ہے جیسا کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف کیا گیا اور اسے بھی پسپائی پر مجبور کر دیا گیا تھا۔
بی ڈی ایس کا کہنا ہے کہ اسرائیل، جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے مقابلے میں تجارتی لحاظ سے کہیں زیادہ کمزور حکومت ہے اور مالی امداد یا تجارتی لین دین میں کمی کر کے اسرائیل کو انسانی حقوق کے احترام اور عالمی قوانین کی پابندی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ امریکہ اور یورپ کی بعض معتبر یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی اس تحریک میں شمولیت کے باعث اسرائیل کے خلاف دباؤ میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے جس پر امریکہ اور یورپ میں اسرائیل کے حامی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔اسرائیل کے حامی حلقے بی ڈی ایس تحریک پر یہودیت کی مخالفت کا الزام لگا کر صیہونیت کے خلاف اٹھنے والی اس عالمی تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگرچہ واشنگٹن کے حکام اسرائیل کی حمایت میں قانون پاس کرانے کے ذریعے اس غاصب حکومت کے مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کا ہتھکنڈہ اپنا رہے ہیں لیکن صہیونی حکومت کے اقدامات کے خلاف امریکی رائے عامہ کا غیض و غضب اتنا زیادہ ہے کہ امریکی کانگریس کے اراکین یا وائٹ ہاؤس کے حکام اس طرح کے بلوں کی منظوری کے ذریعے، عوام کا مقابلہ نہیں کرسکتے-