یورپ، ٹرمپ یا ایران کے سیاسی و اقتصادی مفادات کے انتخاب کے دو راہے پر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے کو غیر معتبر ظاہر کرنے، اور ایٹمی معاہدے کی پابندی کے تعلق سے امریکی عہد شکنی کے باعث لاحق تشویش نے، یورپ کو انتخاب کے دوراہے پر لا کھڑا کردیا ہےکہ وہ ٹرمپ کی بات ماںیں یا ایران کے ساتھ اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کا تحفظ کریں-
سوال یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے یورپ کے اہم ترین دلائل کیا ہیں اور یہ کہ یورپ آخرکار کس راہ کا انتخاب کرے گا؟
ملک کے نجی شعبے کی نمائندہ شخصیات اور ایرانی سفیروں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ موجودہ صورتحال نے ایران کے لیے بے پناہ مواقع پیدا کر دیئے ہیں جن سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھائے جانے کی ضرورت ہے- ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا کہ امریکیوں کو پابندیاں لگانے کی لت پڑگئی ہے وہ نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے بیشتر ملکوں کے خلاف پابندیاں عائد کرتاہے- انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران چالیس سال پہلے ہی اپنے راستے کا تعین کرچکا ہے اور اب یورپ کی باری ہے کہ وہ ٹرمپ اور امریکی مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے-
اس سلسلے میں دو نکات ہیں کہ جن کی تائید کیا جانا ضروری ہے: اول یہ کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ایران کے مفادات کی ضمانت فراہم کی جائے کہ جس کا دائرہ کار معین ہے اور اس میں کسی قسم کے معاملے یا سودے بازی کی ضرورت نہیں ہے- اور دوسرے یہ کہ ایٹمی معاہدے کے مفادات کا تعلق دیگر فریقوں یعنی یورپ، چین اور روس سے بھی ہے- اگر امریکہ کے یکطرفہ اور غیر عاقلانہ فیصلوں کے زیراثر، بین الاقوامی مفادات کو نقصان پہنچتا ہے تو فطری طور پر عالمی سطح پر اور سلامتی کونسل کی جانب سے بھی امریکہ کے یکطرفہ اقدامات کے خلاف فیصلے کئے جانے کی ضرورت ہے-
اقتصادی مفادات کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدے کا تحفظ، یقینی طور پر یورپ کے لئے اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یورپی یونین کو یہ بھی معلوم ہے کہ اسے ایران اور عالمی و علاقائی مسائل پر غائرانہ اور اسٹریٹیجک نظر رکھنی چاہئے- یورپ کو اپنی ساکھ محفوظ رکھنے کے لئے امریکہ کی غیر منطقی پالیسیوں سے اپنا راستہ جدا کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ پھر اسے یقینا اس سیاسی کھیل میں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا-
عالمی مسائل کے ماہر نصرت اللہ تاجیک کہتے ہیں: امریکی عہدشکنی نے یورپ کی ساکھ اور عالمی تعلقات کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہوا ہے لیکن یورپ کو چاہئے کہ وہ عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ ایک عالمی معاہدے کی حفاظت کے لئے ایران کے اقتصادی مفادات کو یورپ کے سیاسی مفادات سے جوڑنے کے لئے تیار ہے- ناروے میں پولیٹیکل سائنسز کے پروفیسر اور ماہر "سور لودگارڈ" کہتے ہیں: یورپی یونین اس سمجھوتے کی پابندی کرنے کا رجحان رکھتی ہے اور اس سمجھوتے کی پابندی کرنے میں یورپی یونین کا محرک اور عزم، سیاسی سرمایہ کاری ہے-
ہم یہ نہ بھولیں کہ یورپ مشرق وسطی میں سیکورٹی کی پہلی کڑی ہے اور علاقے کے نا امن ہونے کی صورت میں اسے بھی شدید نقصان پہنچے گا- اس لحاظ سے امریکہ کی عہد شکنی نے یورپ کی سلامتی، سیاسی مفادات اور اس کی عالمی حیثیت اور بین الاقوامی تعلقات کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے- اس لئے ٹرمپ کے اقدامات اور ایٹمی معاہدے کو خراب کرنے کا اقدام، براہ راست یورپ کے مفادات کے نقصان میں ہے-
اور ڈاکٹر ظریف کے مطابق امریکی اس وقت، اس لیبرل عالمی اقتصادی نظام کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں کہ جسے قائم کرنے کے لئے خود انہوں نے برسوں کوشش کی ہے- یورپ کو عملی طور پر یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ایک عالمی معاہدے کے تحفظ کی غرض سے، وہ یورپ کے سیاسی مفادات اورایران کے ساتھ اپنے اقتصادی مفادات کو یقینی بنانے کے سلسلے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لئے تیار ہے-