یمن پر سعودی حملے روکے جانے کی اقوام متحدہ کی اپیل
اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے پیرکے روز ایک مشترکہ بیان میں، سعودی عرب کی جانب سے امن منصوبے اور یمن مذاکرات میں عدم تعاون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، سعودی اتحاد کے حملوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے-
یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹین گریفتھس Martin Griffiths سمیت متعدد عہدیداروں کی جانب سے بارہا یمن میں جنگ بندی اور امن مذاکرات کے نئے دور کے آغاز کی درخواست کے باوجود، ابھی تک یہ جنگ بند نہیں ہوئی ہے- یمن میں امن مذاکرات کا نیا دور سوئیڈن میں، اقوام متحدہ کی ثالثی اور بین الاقوامی حمایت سے، تحریک انصاراللہ اور یمن کی مستعفی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ ایسی حالت میں شروع ہو رہا ہے کہ ان اقدامات کے باوجود یمن میں سعودی اتحاد کے جارحانہ حملے اور جرائم جاری رہنے کے سبب، اس ملک کے عوام کی سرنوشت کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے-
بحران یمن کے حل کے لئے سیاسی مذاکرات، اب تک سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روڑے اٹکائے جانے کے سبب ناکامی سے دوچار رہے ہیں اور یہی مواقف اور کارکردگیاں، درحقیقت جارح سعودی اتحاد کی جنگ پسندی کے مقابلے میں یمن کی تحریک انصاراللہ کی قیادت میں مزاحمتی فورس کے ڈٹ جانے کا باعث بنی ہیں- سعودی عرب کی خلاف ورزیوں نے یمن میں امن کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار کر رکھا ہے-
جنیوا میں ہونے والے گزشتہ دور کے مذاکرات یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کی صنعا سے باہر جانے پر سعودی اتحاد کی طرف سے پابندی لگائے جانے کی وجہ سے شکست سے دو چار ہوگئے تھے۔ بحران یمن کے بارے میں ہونے والے سیاسی مذاکرات سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی رخنہ اندازی کی وجہ سے اب تک بارہا ناکام ہوچکے ہیں۔ گزشتہ 6 ستمبر کو جنیوا میں یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن گرِیفتِھس کی نگرانی میں یمن امن مذاکرات ہونے والے تھے لیکن جارح سعودی اتحاد کی طرف سے یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے وفد پرصنعا سے باہر جانے پر پابندی لگانے کی وجہ سے یہ مذاکرات ناکامی کا شکار ہوگئے تھے
فرانسیسی اخبار لیبرشن نے اس بارے میں لکھا ہے کہ، مذاکرات کے ذریعے یمن کے بحران کو حل کرنے کے لئے، اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود، ایک موثر راہ حل تک رسائی بعید معلوم ہوتی ہے- اخبار لکھتا ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے یمن کی جنگ "ایک فراموش شدہ جنگ" سے زیادہ ، "نظرانداز کی گئی جنگ " شمار ہوتی ہے اور یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ اقوام عالم یمن میں امن مذاکرات کی راہ میں سعودی عرب کی جانب سے روڑے اٹکائے جانے اور یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی بربریت کا بدستور مشاہدہ کر رہی ہیں-
حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزائل اور ڈرون حملے بند کرنے کے لئے یمن کی تحریک انصاراللہ کی جانب سے اعلان آمادگی، یمن میں امن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، مزاحمت کی جانب سے ایک اور قدم قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس کی عالمی سطح پر حمایت بھی کی گئی ہے- یہ اعلان آمادگی ایسی حالت میں ہے کہ یمنی فوج کے بیلسٹیک میزائل اور ڈرون طیارے دفاعی نوعیت کے حامل ہیں اوران کو دشمن کے حملوں کی روک تھام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے-
اسی بناء پر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر میزائل اور ڈرون حملے روکے جانے کے لئے انصاراللہ کے موقف کو، تحریک انصاراللہ کی نیک نیتی کی علامت اور سفارتی کوشش سمجھنا چاہئے کہ جو تقریبا دو ہفتہ قبل سے، یمن میں اقوام متحدہ کی امن کی کوششوں کے تعلق سے نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے- لیکن جنگ یمن کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور رجحانات کے برخلاف، سعودی اتحاد نے ہمیشہ مقاومت اور مخالفت کی ہے اور یمن کے خلاف اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے اور امن کے عمل میں روڑے اٹکائے ہیں اور امن کے سلسلے میں اب تک انجام پانے والی کوششوں کو تعطل سے دوچار کر دیا ہے-
یمن میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے فوجی حکام ، یمن پر اپنے حملے بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور سعودی اتحاد نے ثابت کر دیا ہے کہ مذاکرات کرنے والے قابل اطمئنان نہیں ہیں کیوں کہ اگر یمن کے بارے میں مذاکرات انجام پاتے تو اس ملک میں امن بہت پہلے قائم ہوچکا ہوتا- یمن میں اب امن قائم کئے جانے کا مطالبہ، عالمی مطالبے میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس امر سے سعودی عرب کی بے توجہی، اس کی مکرر شکست اور سعودی حکمرانوں خاص طور پر محمد بن سلمان کی مزید ذلت و رسوائی کا باعث بنے گی-