برطانیہ کی تقسیم کا خطرہ ، تھریسا مئے کا انتباہ
بریگزیٹ ڈیل پر اتفاق رائے کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹنگ اور فیصلے کے موقع پر اس ملک کی وزیراعظم تھریسا مئے نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس ملک کی پارلیمنٹ بریگزیٹ کو منظور نہیں کرے گی تو ملک کو تقسیم کا خطرہ درپیش ہوجائے گا
تھریسا مئے نے کہا کہ پارلیمنٹ میں برگزیٹ منظور نہ ہوا تو ممکن ہے برطانیہ کو یورپی یونین سے آشفتگی کے عالم میں نکلنا پڑے یا برگزیٹ پوری طرح ناکام ہوجائے اور ملک کو یورپی یونین میں باقی رہنا پڑے - برطانوی وزیراعظم نے خبردار کیا کہ دونوں صورت میں اسکاٹلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے علیحدگی پسندوں کا موقف مضبوط ہوگا-
برطانوی وزیراعظم نے ایسی حالت میں انتباہ دیا ہے کہ برطانیہ کے دارالامراء میں بریگزٹ ڈیل ایک سو باون کے مقابلے میں تین سواکیس ووٹوں سے مسترد ہو گئی جبکہ دارالعوام میں بریگزٹ ڈیل پر ووٹنگ آج پندرہ جنوری کو ہوگی -
یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہوں نے پچیس نومبر کو بریسلز میں ایک اجلاس میں یورپی یونین سے برطانیہ کے باہر نکلنے کے معاہدے کے مسودے کو منظوری دی تھی تاہم باہر نکلنے کے حتمی فیصلے کے طریقہ کار کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ کی موافقت ضروری تھی-
یورپی یونین یا برگزیٹ سے برطانیہ کے باہر نکلنے کا موضوع دوہزارسولہ سے لندن کو درپیش ایک سنجیدہ مسئلہ ہے- اگرچہ برطانیہ کے نصف سے زیادہ عوام نے تئیس جون دوہزار سولہ کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے باہر نکلنے کے حق میں ووٹ ڈالے تھے تاہم باہر نکلنے کے طریقہ کار کے بارے میں مذاکرات کا عمل اور اقتصاد و سیاست پر برگزیٹ کے بعض اثرات کے باعث برگزیٹ کے بہت سے حامی بھی اس فیصلے کے صحیح ہونے کے بارے میں پس و پیش کا شکار ہیں-
دوسری جانب برگزیٹ سے برطانیہ کے باہر نکلنے کے طریقہ کار کے بارے میں فیصلہ کرنے کے سلسلے میں ایک عرصے سے برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مئے کی زیرقیادت کنزرویٹیو پارٹی اور جرمی کوربین کی زیرسربراہی لیبر پارٹی کے درمیان شدید سیاسی اختلافات ہیں-
لیبر پارٹی جسے گذشتہ انتخابات میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اس وقت برگزیٹ ڈیل اور اس سے باہر نکلنے کے طریقہ کار کی مخالفت کر کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے-
لیبر پارٹی کے سربراہ جرمی کوربین نے برگزیٹ سے برطانیہ کی علیحدگی کے طریقہ کار کے بارے میں یورپی یونین کے ساتھ حکومت کی ڈیل کے بارے میں دارالعوام میں ووٹنگ سے چند گھنٹے پہلے کہا ہے کہ : یورپی یونین کے ساتھ وزیراعظم کی ڈیل مسترد ہونے کی صورت میں برطانیہ میں عام انتخابات کرانا پڑے گا تاکہ نئی حکومت برسراقتدار آئے-
یہ مواقف ایسے عالم میں سامنے آرہے ہیں کہ برطانیہ کے پاس صرف دو آپشن ہیں - یعنی یا وہ باہمی اتفاق رائے سے باہر نکلے یا بلا اتفاق رائے کے الگ ہو- اگر وہ اتفاق رائے کے بغیر علیحدگی اختیار کرتا ہے تو آئیرلینڈ کے ساتھ سرحدوں کا موضوع برطانیہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا جس کے بارے میں تھریسا مئے بھی انتباہ دے چکی ہیں-
اس سلسلے میں اخراجات میں اضافے، بینکنگ سسٹم میں کندی ، یورپی یونین کے صارفین کے لئے برطانیہ میں موجود سرمایہ کار بینکوں کی سروسز بند ہوجانے ، برطانیہ اور برطانییہ سے باہر ایئرپورٹ کے امور میں خلل پیدا ہونے اور برطانیہ سے درآمدات و برآمدات کرنے والی ہزاروں کمپنیوں کے لئے جدید ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی لگائے جانے جیسے مسائل و مشکلات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے- اقتصادی و معاشی مسائل کے ساتھ ہی برطانیہ کی حیثیت و اعتبار کا موضوع بھی برطانوی حکام کے لئے باعث تشویش ہے-
برطانوی وزیرخارجہ جرمی ہنٹ نے گیارہ جنوری کو برطانیہ کے سرکاری ریڈیو پر اپنے ایک انٹرویوں کہا کہ برگزیٹ کے موضوع پر یورپی یونین کے ساتھ حکومت کے سمجھوتے کے حق میں ممبران پارلیمنٹ کے ووٹ نہ دینے کی صورت میں رائے دہندگان اور سیاستدانوں کے تعلقات نیز برطانیہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچے گا-
ان حالات میں برطانوی ممبران پارلیمنٹ آج برگزیٹ ڈیل کے بارے میں اپنا حتمی فیصلہ کریں گے جو برطانیہ و یورپ کے مستقبل کا تعین کرے گا اور بین الاقوامی سطح پر اہم اثرات مرتب کرے گا-
اس کے باوجود ایسا نظر نہیں آتا کہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ یورپ کے ساتھ برگزیٹ کے بارے میں برطانوی حکومت کی موجودہ ڈیل کو منطوری دیں گے کیونکہ اس سلسلے میں ان کے درمیان سیاسی جنگ کے ساتھ ہی بہت سے ممبران پارلیمنٹ موجودہ ڈیل کو یورپ کو مراعات دینے کے مترادف سمجھتے ہیں-