Jan ۲۱, ۲۰۱۹ ۱۶:۲۴ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف صیہونی حکومت کا دعوی، جارح حکومت کی فریبکارانہ چال

حالیہ دنوں کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران کے سائنسی وتحقیقاتی سٹلائٹ کو خلامیں بھیجے جانے کو بہانہ بناکر، ایران کے میزائل پروگرام کو سلامتی کے لئے خطرہ بتایا ہے-

ان حلقوں نے ایران کے سٹلائٹ کو خلا میں بھیجے جانے کو قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی قرار دیا اور دعوی کیا کہ ان تجربوں میں ایسے میزائل بھی شامل ہیں جو ایٹمی ہتھیار حمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- یہ ایسے میں ہے کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں صرف صیہونی حکومت ہی ہے کہ جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور وہ عالمی اداروں کو اپنے ایٹمی پروگرام پر نگرانی کی اجازت بھی نہیں دے رہی ہے، تاہم اس غاصب اور جارح حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام ایک مراسلے میں، بزعم خویش ایران کے میزائل اور سٹلائٹ پروگراموں سے مقابلے کی ضرورت پر تاکید کی ہے-

اقوام متحدہ میں صیہونی حکومت کے نمائندے ڈینی ڈینن نے سلامتی کونسل کے نام ایک خط میں ایران کی جانب سے سٹلائٹ خلا میں بھیجے جانے کو سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ایران کے میزائل پروگرام سے مقابلے کا مطالبہ کیا ہے- ڈینی ڈینن نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس کےبعد ایران کا اقدام، بین البر اعظمی میزائل کی تیاری ہوگا -

سوال یہ ہے کہ کیا صیہونی حکومت کو واقعی میں علاقے کی سلامتی پر تشویش لاحق ہے؟ علاقے کی سلامتی کے تعلق سے اسرائیل کا اظہار تشویش اور ایران کے میزائل پروگرام کو علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دینا درحقیقت رائےعامہ کو دھوکہ دینا ہے- اسرائیل ایسے میں ایران کے میزائل پروگرام پر تشویش کا اظہارکر رہاہے کہ خود مسلسل اپنی میزائلوں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے- اسرائیل  مشرق وسطی میں واحد وہ ملک ہے جس کے پاس دو سو سے تین سو تک ایٹمی وار ہیڈز ہیں- برسوں سے جھوٹ بولنے والے ملکوں نے اقوام عالم کا کان یہ کہہ کر بھر دیا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے درپے ہے- اقوام متحدہ میں اسرائیلی نمائندے کی جانب سے سلامتی کونسل میں مراسلہ بھیجاجانا بھی ان ہی مضحکہ خیز اقدامات کا تسلسل ہے کہ جو اسرائیلی وزیر اعظم متعدد بار جنرل اسمبلی میں انجام دے چکے ہیں اور عالمی سطح پر ان کا مذاق اڑایا گیا ہے- نتنایاہو نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کے دوران تہران کے ایک قدیم محلے کی قالین دھلنے کی جگہ کی ایک تصویر دکھائی اور یہ دعوی کیا کہ اس جگہ پر ایران کی خفیہ تنصیبات نصب ہیں اور ایران کے ایٹمی وسائل کا انبار اور گودام ہے-    

امریکہ کے معروف تجزیہ نگار گرث پورٹر کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں خطرہ اصل میں وہ ممالک ہیں جو امریکی ہتھیاروں کی خریداری کر رہے ہیں- اب عالمی برادری سے سوال یہ ہے کہ اس وقت وہ ملک کہ جو پوری قوت کے ساتھ جنگی سازو سامان علاقے میں لا رہا ہے وہ حقیقیت میں خطرہ اور عدم استحکام کا باعث ہے یا ایران کہ جس کے لئے بنیادی طور پر پابندیوں کے سبب کوئی ہتھیار خریدنے کا امکان بھی فراہم نہیں ہے؟

 ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے ایران کے سیٹلائٹ پروگرام کے خلاف دشمنانہ موقف اپنانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے خلائی پروگرام کے مطابق سیٹیلائٹ چھوڑنے کے لئے کسی کی اجازت کا منتظر نہیں ہو گا۔ بہرام قاسمی نے امریکہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ کے ردعمل پر بھی کہا کہ ان دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے بیانات نادرست اور بالکل بے جا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران، اپنی ترقی و پیشرفت کے لئے تمام ٹیکنالوجیوں سے استفادہ کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس راہ میں وہ کسی اور کی مرضی یا خواہشات کی پیروی نہیں کرے گا۔ 

واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وزارت جنگ پینٹاگون کی عمارت میں میزائل دفاعی پروگرام کی دستاویز کی تقریب رونمائی میں دعوی کیا ہے کہ ایران کا سٹیلائٹ پروگرام شکست سے دوچار ہو گیا۔ انھوں نے کہا کہ ایران اگر اپنے اس پروگرام میں کامیاب ہو جاتا تو اہم اطلاعات بھی حاصل کر لیتا، ایسی اطلاعات کہ جن سے وہ بین البراعظمی میزائل توانائی کے حصول میں استفادہ کر سکتا تھا۔

ایران جو اس سے پہلے متعدد سیٹیلائٹ خلا میں بھیج چکا ہے اس بار اس نے پیغام امیر کبیر نامی سیٹیلائٹ کامیابی کے ساتھ سیمرغ نامی راکٹ کے ذریعے خلا کی جانب بھیجا مگر آخری لمحوں میں پیش آنے والی مشکل کے سبب وہ خلا میں قرار نہ پا سکا- ایران کے مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر محمد جواد آذری جہرمی نے کہا ہے کہ ایران کا سٹیلائٹ خلا میں بھیجنے  کا عمل دو مرحلوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تیسرے مرحلے میں رفتار سست پڑجانے پر زمین کے مدار میں قرار نہیں پا سکا۔ البتہ اس پروجیکٹ کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے اس منصوبے میں ۹۰ فیصد کامیابی مل گئی ہے۔واضح رہے کہ اس وقت ایران خلائی ٹیکنالوجی کے تعلق سے دنیا کے ممتاز ممالک میں شمار ہوتا ہے-

اسرائیلی حکام ایسی حالت میں اپنے بے بنیاد دعووں پر مصر ہیں کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی نے اپنی سرکاری رپورٹوں میں ہمیشہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے پرامن ہونے کی تصدیق کی ہے- اسرائیلی حکام کی افتراپردازی اور دروغگوئی، ایک بین الاقوامی ادارے کی توہین اور اقوام متحدہ سے غلط فائدہ اٹھانا ہے- مغربی ایشیا کے بحران زدہ علاقے میں، برسوں سے اربوں ڈالروں کے ہتھیاروں کی خریداری اور اسرائیلی قبضے کے باعث، ایسے شرمناک انسانی جرائم رونما ہو رہے ہیں کہ جس کے بارے میں تشویش، یقینی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی سائنسی و مقامی سرگرمیوں سے زیادہ ہونی چاہئے-    

    

 

ٹیگس