Feb ۰۸, ۲۰۱۹ ۱۷:۵۷ Asia/Tehran
  • مراکش اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی

سعودی عرب کے ساتھ مراکش کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور ایسو سی ایٹڈ پریس خبر رساں ایجنسی نے باخبر ذرائع کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ مراکش نے ریاض سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا ہے۔

مراکش یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد میں شامل تھا لیکن سعودی عرب کے ساتھ مراکش کے تعلقات، خاص طور سے سنہ 2018ع کے دوسرے نصف حصے سے، خراب ہوگئے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں یہ خرابی کیوں پیدا ہوئی؟ آئیے دیکھتے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مراکش کے تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ سعودی عرب کی توقعات اور مراکش کا ان توقعات کے خلاف ہونا ہے۔ سعودی عرب کی توقعات میں، ترکی کے شہر استنبول میں واقع، سعودی قونصل خانہ میں ناراض سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد اضافہ ہوگیا۔ ایک طرف مراکش ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلہ میں سعودی عرب کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے سے گریز کیا اور دوسری طرف مراکش کے خبری ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ سعودی عرب پر دباؤ کم کرنے کے لئے مراکش نے فرانس کو راضی کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

مراکش اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی کی ا یک اور وجہ مراکش کی طرف سے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے دورۂ مراکش کی اجازت نہ دینا ہے۔ محمد بن سلمان نے، جو جمال خاشقجی کے قتل کے اصل ملزم ہیں، نومبر سنہ 2018ع  کے اواخر میں گروپ 20  کے اجلاس میں شرکت کے لئے ارجنٹائن کا دورہ کیا تھا اور اسی موقع پر انہوں نے بعض عرب اور افریقی ممالک کا بھی دورہ کیا تھا۔ اسی موقع پر محمد بن سلمان مراکش کا دورہ بھی کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت مراکش نے اس کی اجازت نہیں دی۔

مراکشی حکومت کے اس رویہ کے خلاف سعودی عرب نے بھی اقدام کیا۔ سعودی عرب نے مراکش میں فٹبال عالمی کپ مقابلوں کے انعقاد کی مخالفت کی، مغربی صحرا کے مسئلے میں مراکشی حکومت کے مخالف محاذ کی حمایت کی اور مراکش کے لئے سعودی مالی امداد بھی روک دی۔ علاوہ ازیں، العربیہ ٹی وی چینل نے، جو اہم ترین سعودی خبری ذریعہ ہے اور مکمل طور پر آل سعود کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے، ایک پروگرام میں مغربی صحرا سمیت مراکش کے جغرافیائی اختلافات کو اٹھایا تھا۔

مراکش اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی کی تیسری وجہ قطر کے ساتھ مراکش کے قریبی تعلقات کا جاری رہنا ہے۔ مراکش نے سعودی عرب سے دوری اختیار کی لیکن قطر کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو جاری رکھا ہے بلکہ ان تعلقات کو فروغ دیا ہے جبکہ قطر اور سعودی عرب کے تعلقات جون سنہ 2017ع  سے اب تک غیرمعمولی کشیدگی کا شکار اور منقطع ہیں۔

اس سلسلہ میں انٹرنیٹ اخبار ”رائے الیوم“ نے پچھلے ماہ ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ”2018، سعودی عرب سے مراکش کی دوری کا سال“۔ اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ ”مراکش نے 2018ع میں ایک ایسا اقدام کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور وہ تھا خلیج فارس کے عرب ممالک، خاص طور سے سعودی عرب، سے دور رہنے کی پالیسی کا آغاز  لیکن دوسری طرف اس نے قطر کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو باقی رکھا۔“

بہر حال، مراکش نے یمن کے خلاف جارح سعودی اتحاد سے الگ ہو کر ریاض سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ اسی سلسلہ میں مراکش کے وزیر خارجہ ناصر برویطہ نے چند ہفتے پہلے الجزیرہ ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ  ”سعودی قیادت والے اتحاد میں مراکش کی مشارکت میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔“

آخری بات یہ کہ مراکش اور قطر اور کسی حد تک کویت کے رویہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک اب خارجہ پالیسی میں آزادی کی سمت اور سعودی عرب کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کی واضح اور مزید مخالفت کی سمت قدم بڑھا رہے ہیں۔  

 

ٹیگس