وینزویلا، مادورو کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاری
وینزویلا میں سیاسی بحران جاری ہے اور امریکہ نواز مخالفین کی ملک میں تبدیلی کی کوششوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ نے اب حکومت وینیزویلا اور صدر نکولس مادورو کے خلاف اقتصادی ہتھکنڈوں پر توجہ مرکوز کرلی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت کے استعمال کی دھمکی بھی دی ہے۔
ادھر حکومت مخالفین مادورو کی برطرفی کے لئے وینیزویلا کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کے خواہاں ہیں۔ وینیزویلا کے اپوزیشن لیڈر خوان گوائیڈو نے امریکی فوجی کارروائی کو مسترد نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ صدر مادورو کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے کی غرض سے اگر ضروری ہوا تو امریکی فوجی مداخلت کی اجازت دینے کے لئے بھی تیار ہیں۔ خوان گوائیڈو کا دعویٰ ہے کہ ان کے اس اقدام کا مقصد ملک میں بحران کا خاتمہ ہے۔
وینیزویلا میں نیا سیاسی بحران اُس وقت شروع ہوا جب خوان گوائیڈو نے 23 جنوری کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کُھلی حمایت سے خود کو وینیزویلا کا صدر قرار دے دیا تھا۔ اس اقدام کو حکومت وینیزویلا نے عوام کے منتخب کردہ صدر نکولس مادورو کے خلاف بغاوت سے تعبیر کیا تھا۔ گوائیڈو کے اس اقدام کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہ اعلان کیا کہ مادورو سے مقابلے کے لئے فوجی مداخلت بھی ان کے پیش نظر ہے۔ ایران، روس، چین، کیوبا، ترکی اور جنوبی افریقہ سمیت بہت سے مملاک نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے رویہ کی مذمت کرتے ہوئے وینیزویلا کی حاکمیت اور ارضی سالمیت کے احترام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وینیزویلا کے بحران میں شدت کے ساتھ امریکی اشاروں پر کام کرنے والے افراد کو اقتدار میں لانے کے لئے واشنگٹن کی فوجی مداخلت کا امکان روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ بعض رپورٹیں وینیزویلا کی فوج سے واشنگٹن کے حکام کے براہ راست رابطہ کی بھی غماز ہیں اور اس رابطہ کا مقصد مادورو حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے فوج کو ڈرانا دھمکانا اور لالچ دینا ہے۔ واشنگٹن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے، جس کا نام سامنے نہیں آیا ہے، اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ”امریکہ وینیزویلا کے خلاف نئی پابندیاں بھی لگانے کی تیاری کر رہا ہے اور واشنگٹن نے وینیزویلا کے فوجیوں سے بھی براہ راست رابطہ قائم کر کے ان سے کہا ہے کہ وہ صدر مادورو کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں نیز امریکہ نواز اپوزیشن لیڈر خوان گوائیڈو کی حمایت کریں۔“
امریکہ کی کوششوں کے باوجود ابھی تک وینیزویلا کے صرف کچھ ہی فوجی افسران نے مادورو سے روگردانی کی ہے۔ اسی بنا پر مذکورہ امریکی عہدیدار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن کو ابھی یہ یقین نہیں ہے کہ وینیزویلا کی فوج کے ساتھ ہونے والے رابطے مادورو کے حامیوں میں اختلافات پیدا کر پائیں گے یا نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی امریکہ اور حکومت وینیزویلا کے مخالفین اس طرح کی کوشش کر چکے ہیں لیکن کوشش ناکام رہی اور وینیزویلا کی فوج کی وفاداری بدستور مادورو کے ساتھ ہے۔
امریکہ اور اس کے حواری پابندیوں اور حکومت وینیزویلا کے مخالفین کی حمایت کے ذریعہ وینیزویلا کی قانونی حکومت کو، جو امریکہ نواز نہیں ہے، گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نکولس مادورو کے مطابق ”امریکہ وینیزویلا میں عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملے گی۔“
امریکہ خود کو سب سے بڑی عالمی طاقت سمجھتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ طاقت کے بَل پر دیگر ممالک پر اپنے مطالبات مسلط کر سکتا ہے لیکن اب روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اور دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی تسلط کے مخالف ممالک اس سوچ کی ٹھوس مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
بہرحال، امریکی سربراہی والا مغربی بلاک اور لاطینی امریکہ میں اس کے علاقائی اتحادی مادورو حکومت کو گرانا چاہتے ہیں جبکہ ملک کے اکثر عوام اور فوج وینیزویلا کے قانونی صدر نکولس مادورو کی حمایت پر قائم ہیں۔