عرب لیگ میں شام کی واپسی کا ایک قدم، مزاحمت کی فتح
اردن کے دارالحکومت امّان میں عرب پارلیمانوں کی کانفرنس میں شام کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کو شرکت کی دعوت دینے سے، عرب لیگ میں شام کی واپسی کے حالات کسی حد تک فراہم ہوگئے ہیں-
شام کا موضوع ،2011 میں عالم عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ایک استثنائی مسئلہ ہے۔ اس استثنا ہونے کی مختلف وجوہات ہیں لیکن ان میں سے دو اہم ہیں- ایک جانب تو شام غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت سے بحران کا شکار ہوگیا اور دوسری جانب شام نے گذشتہ برسوں کے دوران، لیبیا کی طرح انقلابیوں سے نہیں بلکہ کثیرالقومیتی دہشت گردوں سے جنگ کی ہے-
شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے کئی ملکوں نے مل کر مداخلت کی ہے۔ عرب لیگ ان جملہ تنظیموں میں سے ہے کہ جس میں شامل عرب ملکوں نے شام کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لئے اس تنظیم کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے-
واضح رہے کہ 12 نومبر 2011 کو عرب لیگ میں شام کی رکنیت ، قطر کی حکومت کی تجویز پر معطل کردی گئی تھی- مشرق وسطی کے امور کے ماہر اسٹینبرگ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ عرب لیگ کے اٹھارہ ملکوں نے اس تنظیم میں شام کی رکنیت معطل کئے جانے کی حمایت کی تھی جبکہ شام، لبنان اور یمن نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا اور عراق نے استصواب میں حصہ نہیں لیا تھا - عرب لیگ میں شام کی رکنیت معطل کئے جانے کے بعد اس یونین نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شام کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کردی جائیں-
شام کے بحران کو آٹھ سال گذرنے کے بعد بھی بیرونی طاقتوں اور علاقے کی حکومتوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود، نہ صرف یہ کہ اس ملک کی حکومت کا تختہ پلٹا نہیں جا سکا بلکہ شام کی پارلیمنٹ کے اسپیکر "حمودہ صباح" کے بقول، دہشت گردوں اور اس کے حامیوں کے مقابلے میں اس ملک کا مثالی نمونہ قرار پانا، ایک نئے عالمی نظام کے ظہور کی نوید دے رہا ہے-
اٹھاسی مہینے کے بعد عرب لیگ میں شام کی دوبارہ واپسی کے حالات فراہم ہوئے ہیں۔ اور اس ملک کے پارلیمنٹ اسپیکر کو اردن کے دارالحکومت امان میں عرب پارلیمانوں کی انتیسویں کانفرنس میں شرکت کی سرکاری دعوت دیا جانا اس واپسی کی ایک علامت ہے۔ عرب لیگ کا تیسواں سربراہی اجلاس رواں ماہ میں ٹیونس میں منعقد ہوگا -
اگرچہ عرب لیگ کے اجلاس میں شام کی شرکت کا فیصلہ حتمی نہیں ہے لیکن اس کانفرنس میں شام کی شرکت کے حوالے سے عرب لیگ میں اندرونی اختلافات بہت زیادہ ہیں- سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور بحرین، عرب لیگ میں شام کی واپسی نہیں چاہتے اس لئے کہ یہ ممالک عرب لیگ میں شام کی واپسی کو اپنی میدانی اور فوجی شکست کے ساتھ ہی سیاسی شکست بھی سمجھ رہے ہیں- لیکن اس طرح کی فکر رکھنے والے ملکوں کی تعداد عرب لیگ میں بہت کم ہے اسی بنا پر بیشتر ملکوں کی حمایت سے شام کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کو اس کانفرنس میں شرکت کی سرکاری دعوت دی گئی ہے تاکہ عرب پارلیمانوں کی کانفرنس میں کہ جو عرب لیگ سے وابستہ ہے، شرکت کریں-
رواں مہینے میں عرب لیگ کانفرنس میں شام کی واپسی بعید نہیں سمجھی جا رہی ہے- یہاں تک کہ عرب لیگ میں موجودہ اختلافات بھی اس پیغام کے حامل ہیں کہ اگر 2011 میں عرب لیگ کے اٹھارہ رکن ملکوں نے اس لیگ میں شام کی رکنیت معطل کئے جانے کی حمایت کی تھی تو اس وقت یہی ممالک عرب لیگ میں شام کی واپسی کے بھی خواہاں ہیں- عرب لیگ کے آئندہ سربراہی اجلاس میں شام کی شرکت یا عدم شرکت کا مسئلہ، اس اجلاس پر اثر انداز ہوگا اور علاقے میں سازباز کے محور کےمقابلے میں مزاحمت کی کامیابی کے ہمراہ ہوگا-