اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا دورۂ عراق
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی عراق کے صدر اور وزیر اعظم کی دعوت پر پیر کے روز ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ تین روزہ دورے پر بغداد کے دورے پر ہیں-
یہ دورہ سیاسی حلقوں کی جانب سے ، ایک اسٹریٹجک ملاقات اور تہران اور بغداد کے درمیان نئے سمجھوتوں اور معاہدوں کے لئے مناسب موقع بتایا جا رہا ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورے کے اہم ترین اہداف میں سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مستحکم کرنے کے طریقہ کار اورعلاقائی تعاون کا جائزہ لینا ہے- صدر ایران کے دورۂ بغداد میں ایران اور عراق کے درمیان متعدد سمجھوتوں پر دستخط بھی انجام پائیں گے- یہ سمجھوتے خرمشہر اور بصرہ کے درمیان ریلوے ٹریک بچھائے جانے، صنعتی علاقوں کے قیام اور ان میں توسیع ، دونوں ملکوں کے درمیان سفری سہولیات، کسٹم کے مسائل اور اسی طرح صحت اور تجارت کے شعبے میں ہونے طے پائے ہیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اتوار کو بغداد میں عراق کے وزیر خارجہ محمد علی الحکیم کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اسٹریٹجک ہیں اور کوئی بھی اسے کمزور نہیں کرسکتا- انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور عراق خطے میں سلامتی کے دو اہم ستون ہیں لہذا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خطے میں امن کے فروغ کا باعث بنیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہمی تعلقات اور علاقائی مسائل کے بارے میں عراقی وزیر خارجہ کیساتھ ان کے مذاکرات انتہائی تعمیری رہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران اور عراق، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور یہ مسئلہ خطے میں قیام امن کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔
عراق اور شام میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے مقابلے میں ایران کے اسٹریٹجک کردار نے علاقے میں امن و سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنا دیا ہے- بلا شبہ دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے خوشگوار تعلقات میں موجود تنوع کے باعث عراق میں امن و استحکام ضروری ہے- اس وقت اس حساس مسئلے میں تعاون ، اسٹریٹیجک سطح پر انجام پا رہا ہے اور دفاعی اور سیکورٹی شعبوں میں تعاون کے لئے حالات فراہم ہوئے ہیں-
عراق میں ایران کے سابق سفیر حسن کاظمی قمی اپنے ایک نوٹ میں لکھتے ہیں: آج اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان تعلقات، اسٹریٹجک تعاون کی سطح تک پہنچ گئے ہیں اور فطری بات ہے کہ تعاون کی یہ سطح دونوں ملکوں کو ایک اسٹریٹجک تعلقات کی سطح تک لے جا سکتی ہے-
اس بنا پر مداخلت پسند عناصر، ان اسٹریٹجک تعلقات کو خراب کرنے کے لئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہیں کہ ایران ، عراق میں غیر تعمیری مداخلت کرنے اور اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے درپے ہے- لیکن ان اقدامات کے باوجود اعلی ترین سطح پر ایران و عراق کے حکام کی رفت و آمد، ان اقدامات سے بے توجہی کی علامت ہے- اس وقت عراقی حکومت کی نئی سرگرمیوں کے آغاز کے وقت سے ہی اقتصادی شعبوں میں تعاون کا فروغ ، ترجیحات میں شامل رہا ہے- اس سلسلے میں ایران، عراق کے لئے اشیاء کی برآمدات اور ٹرانزٹ کے لئے مناسب ترین راستہ ہے- ایران اسی طرح عراق میں ایندھن اور بجلی کی ضرورت کے بیشتر حصے کی تکمیل کرسکتا ہے- اس کے علاوہ ٹیکنیکل اور انجینئرنگ کے شعبے میں بھی اپنے تجربے عراق منقتل کرنے کی آمادگی رکھتا ہے- ساتھ ہی سرحدی گذرگاہوں اور دونوں ملکوں میں مقدس مقامات کا وجود، نیز عراق کی تعمیر نو میں مشارکت کے لئے مواقع کا ہونا، دونوں ملکوں کے باہمی تعاون میں اہم کردار کا حامل ہے-
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے حال ہی میں عراق کے صدر برھم صالح اور ان کے ہمراہ وفد سے ہونے والی ملاقات میں فرمایا تھا: ہمارا دوست، خودمختار اور ترقی پذیر ملک عراق، ایران کے لئے بہت مفید ہے اور ہم ہمیشہ اپنے عراقی بھائیوں کے ساتھ رہیں گے- رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح بدخواہوں کے پروپگنڈوں اور سازشوں سے مقابلے اور مسائل و مشکلات پر غلبہ پانے کے لئے عراق میں قومی اتحاد کی حفاظت کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ علاقے اور علاقے سے باہرکی بعض حکومتیں، پوری شدت کے ساتھ اسلام ، شیعہ، سنی اور عراق سے بغض وکینہ رکھتی ہیں اور عراق کے داخلی امور میں مداخلت کر رہی ہیں اس لئے ان کے مقابلے میں پوری قوت کے ساتھ ڈٹ جانا چاہئے اور ایسے دشمنوں کے مقابلے میں کسی بھی طرح کے پاس و لحاظ کی ضرورت نہیں ہے- رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام عراق کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے لئے پرعزم ہیں اور میں بھی اس بات پر پورا یقین رکھتا ہوں اور ہم ہمیشہ اپنے عراقی بھائیوں کے ساتھ رہیں گے-
یہی وہ حمایت اور پشتپناہی ہے کہ جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا دورۂ بغداد ، عراق کی قوم اور حکومت کے ساتھ ہمیشہ رہنے کے پرعزم ہونے پر تاکید ہے-