صیہونی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش
متحدہ عرب امارات صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے اس غاصب حکومت کے اسپورٹس بورڈ کی میزبانی کے لئے تیار ہے
ذرائع ابلاغ سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق معذوروں کے لئے کھیل کے عالمی مقابلوں کے موقع پر صیہونی حکومت کے اسپورٹس بورڈ کا ایک وفد متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں موجود رہے گا - اسرائیلی اسپورٹس بورڈ پچیس کھلاڑیوں پر مشتمل ہے- گذشتہ سال اکتوبر میں بھی صیہونی حکومت کے کھلاڑیوں نے ابوظہبی میں عالمی چمپیئن شپ کے مقابلوں میں شرکت کی تھی- اس موقع پر صیہونی حکومت کے وزیرثقافت بھی موجود تھے اور ان کا متحدہ عرب امارات کے حکام نے پرجوش استقبال بھی کیا تھا- علاقے کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت خلیج فارس کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر کے تنہائی سے نکلنے کی کوشش کررہی ہے- صیہونی حکومت کے ساتھ خاص طور سے حالیہ برسوں میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان تعاون کے نئے پہلؤوں کو ذرائع ابلاغ نے بڑے پیمانے پرکوریج دی ہے اور امریکہ کے توسط سے صیہونی دشمن کے ساتھ عرب سازشی سربراہوں کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے رائے عامہ کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کی ہے- یہ تعلقات امریکی صدر ٹرمپ کے سینچری ڈیل جیسے سازشی منصوبوں کے قالب میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں ، سینچری ڈیل کا مقصد علاقے خاص طور سے بیت المقدس پر اسرائیل کی تسلط پسندی تسلیم کرانا ہے- متحدہ عرب امارات، بحرین اور بعض دیگرعرب ممالک منجملہ سعودی عرب کی جانب سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کے اقدامات ایسے عالم میں انجام پا رہے ہیں کہ اس غاصب حکومت نے برسوں سے فلسطینیوں کی سرکوبی کے ساتھ ہی بہت سے عربی و اسلامی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے- حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت کے ساتھ عرب حکام کا تعاون پوری طرح نمایاں رہا ہے اور اب شام ، عراق اور یمن کے بحرانوں میں بھی متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کا براہ راست کردار اسی حقیقت کا ثبوت ہے- اسرائیل کی قانونی حیثیت کی تصدیق و توثیق کے لئے سعودی ولیعہد بن سلمان کے بیانات ، مسقط میں نیتن یاہو کا استقبال اورحالیہ مہینوں میں متحدہ عرب امارات میں صیہونی حکومت کی اسپورٹس ٹیموں کی موجودگی سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ، ٹرمپ کی سینچری ڈیل کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے تاکہ اسے اس کے انجام تک پہنچایا جا سکے یعنی عرب ممالک پر تسلط حاصل کیا جاسکے- صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات میں فروغ کا مطلب علاقے میں اس کی تسلط پسندی و توسیع پسندی کے سلسلے کو تیز کرنے کے لئے ہری جھنڈی دکھانا ہے اور یہ پالیسی گریٹراسرائیل کی تشکیل پر مبنی ہے جس کا دائرہ نیل سے فرات تک پھیلا ہوا ہے اور یہ پالیسی سب سے پہلے خلیج فارس کے عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی- مجموعی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے نئے دور میں پیشقدم قرار دیا جا سکتا ہے- ابوظہبی، صیہونی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ریاض سے بھی آگے ہے اور اس وقت صیہونی حکومت کے ساتھ اس کے روابط معمول کے تعلقات سے بھی آگے بڑھ کر عوامی حساسیت ختم کرنے کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں- متحدہ عرب امارات ، صیہونی حکومت سے عالم اسلام منجملہ عرب ممالک کی حساسیت کو بخوبی جانتا ہے اس لئے اس نے اگرچہ تل ابیب سے اپنے تعلقات کو بڑھایا ہے تاہم رائے عامہ کے ردعمل سے بچنے کی کوشش بھی کررہا ہے - اس بنا پر وہ نہایت عیاری سے زیادہ تر کھیل کے میدان میں اشتراک عمل کے بہانے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو آگے بڑھا رہا ہے-