جولان کی بلندیوں کے سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ کی ہرزہ سرائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا ہے، خارجہ پالیسی کے میدان میں بہت زیادہ متنازعہ اقدامات انجام دیئے ہیں-
ان ہی اقدامات میں سے ایک اسرائیل کی بے چون و چرا حمایت اور ایسے اقدامات کو عملی جامہ پہنانا ہے کہ جسے امریکہ کے سابق صدور نے اب تک انجام دینے سے اجتناب کیا تھا-
ٹرمپ حکومت نے چودہ مئی 2018 کو ایک اشتعال انگیز اقدام کے تحت بیت المقدس کو صیہونی حکومت کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرکے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا- ٹرمپ کے اس اقدام کی عالمی سطح پر مخالفت اور مذمت کی گئی-
امریکی صدر نے صیہونیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے، پیر کے روز تمام عالمی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی نیز سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھ کر، ایک ایسے ڈکلیریشن پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت واشنگٹن نے شام کے مقبوضہ علاقے جولان پر اسرائیل کی حکمرانی کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ امریکی صدر نے عالمی قوانین اور ضابطوں کے منافی اس ڈکلیریشن پر دستخط صیہونی حکومت کے وزیراعظم نتن یاہو کی موجودگی میں کیے ہیں۔ امریکی صدر نے اس ڈکلیریشن پر دستخط سے پہلے، صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام برسوں پہلے ہی انجام پانا چاہئے تھا۔ شام کے علاقے جولان پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو سرکاری طور پر جائز تسلیم کیے جانے کے امریکی فیصلے کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے-
ایسے میں جبکہ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف عالمی سطح پر وسیع مخالفتوں کا سلسلہ جاری ہے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نےعالمی ردعمل کے پیش نظر اس مسئلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس عالمی ردعمل سے انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے- پمپئو نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے نے مجھے غمگین کیا ہے لیکن میں اس مسئلے سے حیرت زدہ نہیں ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں سفارتخانے کی منتقلی کے مسئلے میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی- درحقیقت پمپئو، جولان کے تعلق سے ٹرمپ کے اقدام کے خلاف عالمی سطح پر ہونے والی مخالفتوں کا جواز پیش کرنے کے لئے کہ جو وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ کی بوکھلاہٹ کا باعث بنا ہے اور جس نے امریکہ کے الگ تھلگ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے، یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے مسئلے میں بھی شروع سے ہی مخالفتیں بہت زیادہ تھیں، لیکن اب دنیا کے بہت سے ملکوں نے اس سلسلے میں اپنی رضایت کا اظہار کیا ہے- جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور امریکہ کے اتحادی دو ملکوں کے علاوہ کسی نے بھی حتی یورپی یونین، اور اس کے رکن ملکوں نے بھی اس مسئلے میں واشنگٹن کا ساتھ نہیں دیا ہے-
درحقیقت ٹرمپ نے عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے جولان کی بلندیوں کو اسرائیل میں شامل کئے جانے کو سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے جبکہ ان قراردادوں میں صراحتا جولان کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہوئے، اسرائیل سے پسپائی کا مطالبہ کیا گیا ہے- اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے- اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ جولان کے تعلق سے اقوام متحدہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے- جولان کے بارے میں اقوام متحدہ کی پالیسی ، سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں منعکس کی گئی ہے اور یہ پالیسی ابھی تبدیل نہیں ہوئی ہے-
واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے دسمبر انیس سو اکیاسی میں، قرارداد چار سو ستانوے جاری کرنے کے ذریعے جولان کی بلندیوں پر اسرائیل کے قبضے کی مخالفت کی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ جولان کے مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور اسے اس علاقے سے پسپائی اختیار کرلینا چاہئے- سوال یہ ہے کہ امریکہ کہ جو خود سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور اسے خود بھی اس کونسل کی قراردادوں کا محافظ اور حامی ہونا چاہئے پھر آخر کیوں سلامتی کونسل کے قراردوں کو پامال کرتے ہوئے، صیہونی حکومت کے مفادات اور اس کے مطالبات کی تکمیل کے لئے جولان کے علاقے کو اسرائیل سے ملحق کئے جانے کو سرکاری طور پر تسلیم کر رہا ہے؟
بلا شبہ ٹرمپ کا یہ اقدام یکطرفہ پسندی پر مبنی ہے کہ جسے اس کے دورۂ صدارت میں بہت زیادہ تقویت ملی ہے اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اسے اہمیت حاصل ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ کا یہی رویہ عالمی سطح پر امریکہ کے الگ تھلگ ہونے کا باعث بن رہا ہے- لیکن وائٹ ہاؤس نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ایک حیرت انگیز دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی اس بات کا باعث بنی ہے کہ امریکہ کو ایک بار پھرعالمی قیادت حاصل ہوجائے۔ لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں کے تعلق سے عالمی طاقتوں منجملہ واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کا اظہار تشویش اور امریکہ کی روز افزوں گوشہ نشینی، وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کے کھوکھلا ہونے کو ثابت کردیتی ہے-