ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف شامیوں کا اتحاد اور یکجہتی
شام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد شام کی مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر غاصب اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کئے جانے کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں اور ان احتجاجی مظاہروں کو اب ایک ہفتہ ہوچکا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ 25 مارچ کو شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت باضابطہ طور پر تسلیم کرلی تھی۔ ایران کے یونیورسٹی پروفیسر مہدی علی خانی نے ٹرمپ کے اس فیصلہ کو سامراجی دور کے فیصلہ کی مانند قرار دیا جب ایک ملک کی سرزمین کا کچھ حصہ وقت کی سامراجی طاقت کے فرمان سے دوسرے ملک کو دے دیا جاتا تھا۔ ٹرمپ کے فیصلہ کے علاقائی اور بین الاقوامی پیمانے پر سنگین نتائج برآمد تو ہوں گے ہی، اس کا نتیجہ شام کی قومی سطح پر فوری طور پر ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کے اس غیرقانونی فیصلہ کے خلاف شام کے لوگوں نے، چاہے وہ صدر بشار اسد کے حامی ہوں یا مخالف، وسیع پیمانہ پر احتجاج کیا ہے۔ شام میں یا بیرون شام رہنے والے شامیوں نے، بلکہ شام کے کُرد علاقوں کے لوگوں نے بھی، امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا مذکورہ فیصلہ شام کے لوگوں میں اتحاد و یکجہتی کا سبب بن گیا ہے اور یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس باہمی اتحاد و یکجہتی کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ شامی عوام کو گزشتہ 8 سال سے ایک سنگین بحران کا سامنا ہے جس نے شام کی آدھی سے زیادہ آبادی کو شام اور شام سے باہر بےگھر کردیا ہے۔ بحران کی وجہ سے شام کی 80 فی صد سے زیادہ بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں اور ہزاروں لاکھوں افراد مارے گئے اور زخمی ہوئے ہیں۔
ان حالات میں شامی عوام نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شامی جولان کے علاقے کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرکے ڈونالڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کو یہ پیغام دیا ہے کہ سیاسی اختلافات جغرافیہ اور اپنی سرزمین وطن کو نظر انداز کئے جانے کا سبب نہیں بن سکتے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے جولان کے بارے میں یک طرفہ اور غیر قانونی فیصلہ کرکے اپنے پَیر پر خود ہی کُلہاڑی مار لی ہے۔ امریکی حکومت، جو گزشتہ 8 سال کے دوران شامی حکومت کو ختم کرنے، شام کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور شامی عوام کے قومی اتحاد کو تار تار کرنے میں ناکام رہی ہے، اب اس نے خود ہی اپنے اور اسرائیل کے خلاف شامی عوام کو متحد کردیا ہے اور شامیوں کے قومی تشخص اور اتحاد و یکجہتی کی تقویت کا سبب بن گئی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جولان کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف شامی عوام کے مظاہرے اور ادھر بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف بھی فلسطینیوں کے گزشتہ ایک سال کے دوران ہونے والے مظاہرے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جغرافیہ ایک ملک کے عوام کے لئے تشخص کا عنصر ہوتا ہے۔ بنابریں، اگر کسی ملک کے جغرافیہ کو خطرہ لاحق ہو یا ملک کی تقسیم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہو تو پھر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اتحاد و یکجہتی میں تقویت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال عراق میں سنہ 2015ع سے 2018ع تک دیکھنے کو ملی۔ سنہ 2014ع میں عراق کے ایک تہائی حصہ پر دہشت گرد گروہ داعش کا قبضہ ہونے سے پہلے عراق کے سیاسی گروپوں اور جماعتوں میں اختلافات اپنے عروج پر تھے لیکن سنہ 2015ع میں جب عراق کی ارضی سالمیت کے تحفظ کے لئے استقامت شروع ہوئی، جو سنہ 2018ع تک جاری رہی، تو اس کے بعد عراق کے اکثر سیاسی گروپوں نے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر داعش گروہ سے مقابلہ اور ارضی سالمیت کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے دیا تھا۔
جولان کی پہاڑیوں کے دفاع میں شامیوں کا قومی اتحاد اور یکجہتی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ شامی عوام جولان کو اپنے ملک کے تشخص کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ کے اقدام نے اگرچہ یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکی صدر موجودہ عالمی نظام سے کم سے کم 50 سال پیچھے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کے ذہنی بیمار ہونے پر بھی مُہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ وہ اس لئے کہ اس طرح کے عجیب و غریب فیصلے، جن کی عالمی پیمانہ پر مخالفت ہوتی ہے، صرف اور صرف ایک ذہنی بیمار ہی کرسکتا ہے۔