Apr ۰۵, ۲۰۱۹ ۲۱:۱۴ Asia/Tehran
  • عراق سے سعودی عرب کی قُربت، کیوں؟

اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورۂ عراق کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا ہے کہ سعودی عرب کے ایک اہم  وفد نے عراق کا دورہ کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے ایک اقتصادی اور سیکورٹی وفد نے عراق کا دورہ کیا ہے اور سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی کہا ہے کہ وہ عراق کو ایک گراں بہا تحفہ پیش کریں گے۔ سعودی عرب اور عراق کی مشترکہ سرحد ہے اور ان دونوں ملکوں کے تعلقات حالیہ برسوں میں بہتر ہوئے ہیں۔ سعودی عرب نے 25 سال کے بعد سنہ 2015ع میں بغداد میں اپنا سفارت خانہ کھولا تھا۔ فروری سنہ 2016ع میں عراقی کردستان علاقہ  کے صدر مقام اربیل میں سعودی عرب کا قونصل خانہ بھی کھولا گیا تھا۔ علاوہ ازین، عراق اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی دورے بھی شروع ہوگئے تھے۔ اب گزشتہ بدھ کو، 100 ارکان پر مشتمل، سعودی عرب کے سب سے بڑے اقتصادی اور سیکورٹی وفد نے عراق کا دورہ کیا اور عراقی حکام سے ملاقات کی۔ قابل ذکر ہے کہ عراق اور سعودی عرب کے درمیان 1990ع سے 2015ع تک پچیس سال سفارتی تعلقات منقطع رہے تھے۔

عراق سے قُربت حاصل کرنے کا سعودی عرب کا سب سے اہم ہدف اسلامی جمہوریۂ ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کا سدباب اور عراق اور ایران کے درمیان دوری پیدا کرنا ہے۔ سعودی عرب کے اقتصادی اور سیکورٹی وفد نے عراق کا دورہ ایسے حالات میں کیا ہے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی گزشتہ مارچ میں عراق کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے عراق کے اعلیٰ حکام اور اہم مذہبی شخصیات سے ملاقات کی تھی۔ ڈاکٹر حسن روحانی کے دورۂ عراق کے دوران ایران اور عراق کے درمیان تجارتی حجم موجودہ 12 ارب ڈالر سے بڑھا کر آئندہ دو سال کے اندر 20 ارب ڈالر کئے جانے پر اتفاق ہوا تھا۔

اب سعودی عرب اپنی اقتصادی توانائی سے استفادہ کرتے ہوئے ایران اور عراق کے تعلقات میں خلل ڈال کر عراق کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی سلسلہ میں گزشتہ سال عراق اور سعودی عرب کی کوآرڈینیشن کونسل کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا اور اس کونسل کا دوسرا اجلاس سعودی عرب کے وفد کے حالیہ دورۂ عراق کے دوران منعقد ہوا۔ سعودی عرب کے چیمبرز آف  کامرس کے سربراہ کے مطابق عراق کے لئے سعودی برآمدات کا حجم سنہ 2018ع میں 2 اعشاریہ 6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ سعودی عرب کے وفد کے حالیہ دورۂ عراق کے دوران سعودی عہدیداروں نے کہا تھا کہ عراقی عوام کے لئے ایک اسٹیڈیم بنانے کا ارادہ تھا لیکن شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم کے بعد اب عراقیوں کے لئے ایک اِسپورٹس سِٹی تعمیر کی جائے گی جس کی لاگت ایک ارب ڈالر ہوگی، یہ اِسپورٹس سِٹی عراق کو تحفہ میں دی جائے گی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب عراق کی کمزور اقتصادی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف تو اقتصادی حربہ استعمال کرکے عراق میں اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد بنانے اور دوسری طرف ایران اور عراق کے فروغ پذیر تعلقات میں خلل اندازی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔  

دریں اثنا، سعودی عرب عراق سے متعلق اپنے مقصد کے حصول کے لئے اقتصادی حربہ کے ساتھ ساتھ مذہبی کارڈ بھی کھیلنا چاہتا ہے۔ عراق کی تقریباً 97 فی صد آبادی مسلمان ہے اور سعودی عرب  کی سیاحت میں سب سے بڑا حصہ مقامات مقدسہ کی زیارت پر مشتمل ہے۔ بنابریں، سعودی عرب کے وفد کے حالیہ دورۂ عراق کے دوران بغداد میں بھی سعودی قونصل خانہ کھولا گیا اور یہ طے پایا ہے کہ عراقیوں کے لئے سعودی ویزا یہیں سے دیا جائے گا۔ اگرچہ بغداد میں سعودی عرب کا قونصل خانہ کھولے جانے کی سب سے بڑی وجہ عراقیوں کے لئے ویزا جاری کرنا بتایا گیا ہے لیکن بلا شک و شبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب نے اپنے سیاسی اور سیکورٹی سے متعلق مقاصد کے پیشِ نظر ہی بغداد میں قونصل خانہ کھولا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے عراق میں سعودی عرب کے پہلے سفیر ثامر السبہان کو عراق کے داخلی امور میں ناجائز مداخلت کی وجہ سے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر عراق سے نکال دیا گیا تھا۔

 

ٹیگس