Jun ۱۷, ۲۰۱۹ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • پمپئو کی ایران مخالف امریکی رویہ جاری رہنے پر تاکید

امریکہ نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمنانہ موقف تیز کر دیا ہے اور واشنگٹن کے مطالبات منوانے کے لئے تہران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے رویّے پر تاکید کر رہا ہے-

اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائک پمپئو نے اتوار سولہ جون کو ایک انٹرویو میں فاکس نیوز ایجنسی میں ایران پر دوبارہ الزام لگاتے ہوئے تہران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے پر تاکید کی ہے- 

پمپئو نے دعوی کیا کہ واشنگٹن ، ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن اس ملک پر اقتصادی و سفارتی دباؤ بدستور جاری رہے گا-

پمپئو کے دعوے کے مطابق امریکی صدر، ایرانی رویے کو روکنے اور جنگ سے بچنے کے لئے جو بھی کر سکتے تھے کیا ہے- امریکی وزیر خارجہ نے بحیرہ عمان میں دوآئل ٹینکروں کو پیش آنے والے حالیہ واقعے میں ایران کے ملوث ہونے کے سلسلے میں موجود پس و پیش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ جو کچھ ہوا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے-

 پمپئو نے اسی طرح اتوار کو سی بی ایس ٹی وی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمیشہ  امریکی مفادات کا دفاع کریں گے اس امریکی عہدیدار نے ایران کو محدود کرنے کے لئے پابندیاں عائد کرنے اور ایٹمی سمجھوتے سے ہوشیاری سے نکلنے کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کا یہ کارزار جاری ہے-

ایران سے جنگ سے اجتناب کے بارے میں  امریکی وزیرخارجہ پمپئو کا دعوی ایسی حالت میں سامنے آ رہا ہے کہ امریکی حکومت نے اقتصادی جنگ شروع کر کے ایرانی عوام کو نشانہ بنایا ہے اور اس دشمنانہ پالیسی کو جاری رکھنے پر تاکید کرتا ہے- ایران کے ساتھ جنگ پر امریکہ کے مائل نہ ہونے کے بارے میں امریکی وزیرخارجہ کی تاکید علاقے میں واشنگٹن کے اتحادیوں ، امریکی فوجیوں اورعالمی اقتصاد خاص طور پر تیل کی منڈی  کے لئے اس طرح کی جنگ کے نتائج کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجسٹوں کے اندازوں کے پیش نظر سامنے آئی ہے-

معروف نیو کنزروییٹو تجزیہ نگار ڈیوڈ فروم نے اپنے ٹویٹر پیج پر ایک مقالے میں کہ جسے اٹلانٹک جریدے نے شائع  کیا ہے لکھا ہے کہ جو عراق جنگ کے حامی تھے سنیں کہ ایران کے خلاف جنگ ایک المیہ ثابت ہوگی- 

اس کے باوجود ٹرمپ حکومت کا بدستور یہ خیال ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کراسلامی جمہوریہ ایران کو جھکنے اور بزعم خود ایرانی حکام کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے-

 البتہ ایران کے سلسلے میں ٹرمپ حکومت کی پالیسی میں تضاد پایا جاتا ہے-  ٹرمپ اب تک کئی بار ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے آمادگی ظاہر کر چکے ہیں اور یہاں تک اعلان کرچکے ہیں کہ انھوں نے ایران میں امریکی مفادات کے محافظ سوئیزرلینڈ کو ایک فون نمبر بھی دے دیا ہے تاکہ ایرانی حکام جب چاہیں اس نمبر پر فون کرلیں- ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ جاپان میں اس ملک کے وزیراعظم آبے شنزو سے ثالثی اور تہران کا دورہ کرنے کی اپیل تک کردی لیکن آبے کے دورہ تہران میں رہبر انقلاب اسلامی نے واشنگٹن کی خلاف ورزی کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ ہر طرح کے مذاکرات کو مسترد کردیا- رہبرانقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کی صداقت پر سوال کھڑے کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ ہم گذشتہ چند برسوں کے مذاکرات کے تلخ تجربے کو ہرگز نہیں دہرائیں گے- حکومت ٹرمپ نے ایران کے خلاف دباؤ اور ایرانوفوبیا بڑھانے پر تاکید کی ہے اور ایران کے نام نہاد خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے عرب ممالک کے اتحاد کی اپیل کی ہے- اس طرح حکومت ٹرمپ نے ایران کے سلسلے میں دباؤ کی پالیسی کے ساتھ ہی مذاکرات کی پالیسی اختیار کی ہے-اس کے باوجود ٹرمپ کے مد نظر مذاکرات درحقیقت ایران کو ممکنہ مذاکرات میں اپنے مطالبات ڈکٹیٹ کرانا ہے-  ایران کے سلسلے میں امریکی رویہ دھمکی ، منھ زوری اور زور زبردستی پر مبنی ہے اس کے باوجود ایران گذشتہ چالیس برسوں کے دوران امریکی اقدامات اور پالیسیوں کے مقابلے میں ڈٹا رہا ہے اوراس نے عملی طور پر واشنگٹن کی پالیسیوں کو ناکام اور غیرموثر بنا دیا ہے - امریکی تجزیہ نگار ٹروڈے روبین کا کہنا ہے کہ ایران پرٹرمپ کی کھلی تنقید اور اتحادیوں سے ایران مخالف کارزار میں شامل ہونے کی درخواست ، اس کی پالیسیوں کی ناکامی کی ضمانت ہے - ایران نے ثابت کردکھایا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں پرغلبہ پانے اور ٹرمپ حکومت کی دشمنانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے-

 

ٹیگس