موگرینی کا دورہ امریکہ
جب سے ڈونالڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں اس وقت سے امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں سردمہری پیدا ہوئی ہے اور ایٹمی سمجھوتے کی مانند مختلف مواقع پر دونوں کے اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں- ان اختلافات کے پیش نظر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کا دورہ امریکہ کافی اہمیت کا حامل ہے-
فیڈریکا موگرینی نے بعض اہم موضوعات کے بارے میں اعلی امریکی حکام سے ملاقات کے لئے اٹھارہ جون کو واشنگٹن کا دورہ کیا -
بریسلز اور واشنگٹن کو درپیش مسائل کے پیش نظر ایٹمی سمجھوتے کا مستقبل ، یورپی و امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کے اہم موضوعات میں شمار ہوتا ہے-
امریکی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس ملک کے وزیر خارجہ مائک پمپئو نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے ملاقات کر کے دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیا تھا-
دونوں فریقوں نے یورپ ، افغانستان ، کیوبا، ایران، لیبیا ، مولداوی ، مغربی بلقان ، روس ، یوکرین اور ونزوئیلا کے سیکورٹی و دفاعی شعبے سے متعلق امریکہ و یورپ کے درمیان موجودہ چیلنجوں سمیت باہمی دلچسپی کے امور کا جائزہ لیا-
اس کے ساتھ ہی جیسا کہ امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے، اس وقت واشنگٹن اور بریسلز کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ ، مسئلہ ایران ہے-
اس وقت ایران کے حوالے سے یورپ کی سب سے بڑی تشویش ایٹمی سمجھوتے کا مستقبل ہے کہ جو امریکہ کے باہر نکلنے اور ایران کی جانب سے الٹی میٹم دئے جانے کے پیش نظر خطرناک صورت حال اختیار کرچکا ہے-
اس کے ساتھ ہی آئل ٹینکروں کوپیش آنے والے حادثے کے مدنظر خلیج فارس کے علاقے میں کشیدگی میں اضافہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ موگرینی نے اس سلسلے میں سخت انتباہ دیا ہے-
موگرینی نے امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل ایران کی جانب سے یورے نیم کی افزودگی کی مقدار بڑھانے کے ارادے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ ایران ، ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں اپنے عہد پر پابند رہا ہے- اس وقت یورپی یونین کی توجہ، ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ اور ایرانی عوام کو اس کے فوائد سے بہرمند کرنے پر مرکوز ہے-
فیڈریکا موگرینی نے ایران سے ایٹمی سمجھوتے کا پابند رہنے کی اپیل کی ہے-
موگرینی کی اس خواہش کے باوجود تہران نے ایران کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے لازمی مالی نظام انسٹیکس کے عملی جامہ نہ پہننے پر تنقید کی ہے اور بنیادی طور پر ایٹمی سمجھوتے کی پوزیشن واضح ہونے کے سلسلے میں تہران کا الٹی میٹم درحقیقت یورپ اور یورپی ٹرائیکا یعنی ( جرمنی ، فرانس اور برطانیہ ) کے لئے ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے سلسلے میں ان کی سنجیدگی کی سب سے بڑی آزمائش ہے-
ہرچند کہ ایران کے حالیہ اقدامات پریورپیوں کا ردعمل زیادہ تر منفی رہا ہے-
جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ ہم ایران سے چاہتے ہیں کہ ایٹمی سمجھوتے کی پابندی کرے ورنہ اسے یقینا کچھ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا- فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں یورپ کی وعدہ خلافیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سمجھوتے کے سلسلے میں صبر سے کام لے -
درحقیقت یورپیوں کو چاہئے کہ وہ ایران پر تند و تیز تنقیدوں کے بجائے ٹرمپ حکومت کو اپنی تنقیدوں اور انتباہات کا نشانہ بنائیں -
ٹرمپ بلاکسی معقول وجہ کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے تناظر میں قانونی معاہدے کے برخلاف مئی دوہزار اٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل گئے اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں نافذ کردیں-
اس کے بعد بھی حکومت امریکہ ایٹمی سمجھوتے کو ختم کرنے اور ایران کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے ان مسائل کے پیش نظر یورپ کو ، ایران پر الزام لگانے کے بجائے واشنگٹن کے حکام پر دباؤ ڈالنا چاہئے تاکہ وہ ایران اور ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں غیرقانونی اور کشیدگی پیدا کرنے والا موقف تبدیل کریں -