امریکہ کی نئی بلیک میلنگ، خلیج فارس میں کشیدگی کی پالیسی جاری
واشنگٹن کے حکام مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں کشیدگی کی پالیسی اپنا کر علاقے کے بعض ملکوں کی مشارکت حاصل کرنے اور چین اور جاپان جیسے ملکوں کو واشنگٹن کے مدنظر سیکورٹی اور فوجی اخراجات پورے کرنے کے لئے مجبور کرکے، مزید مفادات اور مراعات حاصل کرنے کے درپے ہیں-
اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام کے ساتھ ملاقات میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ خلیج فارس میں سیکورٹی پر نگرانی کے تمام اخراجات امریکہ ہی کو ادا کرنا نہ پڑے ریاض اور ابوظہبی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کے زیادہ سے زیادہ اخراجات پورے کریں- امریکہ کی جانب سے عرب اتحادیوں سے باج دینے کا مطالبہ، ٹرمپ حکومت میں کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور اس نے اپنے دور صدارت کے آغاز سے ہی ہمیشہ اپنے اتحادی ملکوں سے پیسہ مانگا ہے اور اب بھی پیسہ مانگ رہاہے-
چنانچہ امریکی صدر ٹرمپ نے این بی سی ٹیلیویژن سے گفتگو کرتے ہوئے پیسے لے کر سعودی عرب کی حفاظت کئے جانے کو مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی ایک وجہ بتایا ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ ماضی کے برخلاف کہ جب واشنگٹن سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں لیتا تھا اب امریکہ اس تحفظ سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے اس انٹرویو میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ واشنگٹن، اقتصادی مسائل کی بنا پر علاقے منجملہ یمن میں سعودی عرب کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام سے چشم پوشی کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اس سے قبل سعودی حکمرانوں کو دودھ دینے والی گائے کہا تھا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر سعودی عرب کا شاہی نظام دو ہفتے بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ خلیج فارس کے جنوبی علاقوں کے امریکی اتحادیوں کا مفت سواری کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے اور ان ممالک کو اب اپنے تحفظ کے لئے امریکہ کے نہ صرف اخراجات برداشت کرنا ہوں گے بلکہ ان ممالک کو چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے سودے اور تجارتی و اقتصادی معاہدوں کے ذریعے واشنگٹن کو فائدہ بھی پہنچائیں۔
اسی بنا پر واشنگٹن نے گذشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بڑے فوجی معاہدے کرکے ،اور خطروں کے مقابلے میں ان ملکوں کی حمایت کا دعوی کرکے، یمن کی جنگ میں سعودیوں کی حمایت اور خلیج فارس کے علاقے میں خطرات اور کشیدگی کو ہوا دے کر ان سے زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھنے کے چکر میں ہے-
اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں میں بحیرۂ عمان اور خلیج فارس میں امریکہ کی فوجی موجودگی، اور ایران کے خلاف تیل کا بائیکاٹ اور فوجی دھمکی کہ جس سے علاقے میں جنگ کا خوف بڑھ رہا ہے ، اس بات کا سبب بنی ہے کہ واشنگٹن علاقے کی موجودہ صورتحال کو ایک بار پھر اپنے منفعت پسندانہ اہداف کے حصول کے لئے کچھ اور بہانہ تراشے۔ یہ بہانہ دو صورتوں میں ہے اول تو یہ کہ نہ صرف متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک سے وہ علاقے میں سیکورٹی اور فوجی اخراجات کے لئے زیادہ سے زیادہ پیسے کا مطالبہ کرے بلکہ بدامنی کو ہوا دے کر دیگر ملکوں سے بھی اپنے فوجیوں کے اخراجات ادا کرنے کا مطالبہ کرے-
اسی سلسلے میں ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا ہے کہ چین کا 91 فیصد ، جاپان کا 62 فیصد تیل اور بہت سے دیگر ملکوں کے ایندھن آبنائے ہرمز سے گذرتے ہیں اس لئے کیوں ہم دیگر ملکوں کے جہاز گذرنے کے راستوں کی حفاظت اور دفاع کریں اور ان ملکوں سے اس کے عوض کچھ دریافت بھی نہ کریں- ایک اورمسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کے بارے میں اقوام عالم بخوبی واقف ہیں اس بنا پر واشنگٹن کے حکام کی کوشش ہے کہ اپنی پالیسیوں کی توجیہ کے لئے، دیگر ملکوں کو بھی اپنے کھیل میں ہمنوا بنا لیں اور ان کو اپنے ہمراہ کرنے اور علاقے کی سلامتی کی حفاظت کے دعوے کے ذریعے علاقے میں خوف زدگی کے ماحول میں اضافہ کریں-
امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے مقصد سے علاقے کے ماحول کو مزید کشیدہ کرنے کی اپنی پالیسی پرعمل کرنے کے لئے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ملکوں کو استعمال کررہا ہے تاہم اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ سے ہی علاقے سے امریکی فوج کے انخلا اورعلاقے کی سلامتی کو خود خلیج فارس کے ملکوں کے توسط سے انجام پانے پر زور دیتا آ رہا ہے- اسی سلسلے میں امریکی صدر کے ہاتھوں آل سعود حکمرانوں کی تذلیل کے بعد ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ اپنی سلامتی کو اغیار کے سپرد کئے جانے کا انعام اس طرح کی ذلت و رسوائی کے ساتھ ملتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کرائے کی سلامتی کے خواہاں ہیں یعنی ایسی سلامتی جو امریکی تحفظ اور واشنگٹن کو بھاری بھرکم پیسہ و کرایہ ادا کئے جانے کے نتیجے میں حاصل ہو۔