امریکی صدر کے دورۂ جنوبی کوریا کے خلاف احتجاجی مظاہرہ
جنوبی کوریا کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ جنوبی کوریا کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے-
جنوبی کوریا کے شہری حقوق کے گروہوں اور مظاہرین نے سئول میں اپنے بڑے احتجاج کے دوران، دیگر ملکوں کے خلاف امریکہ کے توسط سے معاشی دباؤ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے-مظاہرین نے امریکی صدر کے دورۂ جنوبی کوریا کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ شمالی کوریا پر پابندی عائد کرے- ٹرمپ کا یہ دوسرا دورۂ جنوبی کوریا ہے - انہوں نے پہلی مرتبہ نومبر 2017 میں اس ملک کا دورہ کیا تھا-
جنوبی کوریا کے عوام کی جانب سے ٹرمپ کے اس دورے کی مخالفت، موجودہ حالات میں خاص پیغام کی حامل ہے- جنوبی کوریا کے صدر نے عہدۂ صدارت پر فائز ہونے کے ساتھ ہی، اپنے ایجنڈے میں شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی میں کمی کی پالیسی اپنائی ہے- جنوبی کوریا میں سرمائی المپیک کھیلوں میں شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کی موجودگی ، دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے آغاز کے لئے سنہری موقع تھا تاکہ دونوں ملک باہمی مخاصمت کے دلدل سے نکل کر باہمی دوستی اور تعاون کی جانب قدم بڑھائیں-
اسی سلسلے میں جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے حکام خاص طور پر دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان بات چیت کے چند دور انجام پائے جو دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لئے مون جائہ کی پالیسی کا ماحصل تھا، تاہم اس وقت امریکہ کی جانب سے روڑے اٹکائے جانے کے سبب، جزیرہ نمائے کوریا میں امن مذاکرات کا عمل مشکل سے دوچار ہوگیا ہے- امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی ، دونوں کوریاؤں کے درمیان بھی امن مذاکرات کے آغاز نے یہ تشویش پیدا کردی تھی کہ اگر سئول اور پیونگ یانگ کے تعلقات میں کشیدگی ختم کرنے کا عمل مثبت ثابت ہوتا ہے، اور شمالی کوریا کے ساتھ واشنگٹن کے مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں، تو اس صورت میں جزیرہ نمائے کوریامیں امن کی برقراری کی کوششیں بھی ناکام ہوجائیں گی-
چنانچہ امریکہ نے اپنے غیر اصولی اور غیر منطقی موقف میں صراحتا یہ بات کہی کہ اگر واشنگٹن اور پیونگ یانگ کے درمیان مذاکرات نتیجہ بخش نہ ہوئے تو دونوں کوریاؤں کے درمیان مخاصمت کے خاتمے کے سمجھوتے کو وہ قبول نہیں کرے گا، جس سے یہ تشویش بھی صحیح ثابت ہوگئی کہ وائٹ ہاؤس، شمالی کوریا کے ساتھ اپنے سمجھوتے کے طے پانے سے قبل، دونوں کوریاؤں کے درمیان طے پانے والے باہمی تعاون کے سمجھوتے کو قبول نہیں کرنے کو تیار نہیں ہے-
روس کے سینئر ماہر اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اینڈرے ایوانف کہتے ہیں : جب بھی جزیرہ نمائے کوریا میں امن کی فضا ہموار ہوئی ہے، امریکہ نے نئے الزامات عائد کرکے اور نئے مطالبے کرکے، امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے-
واضح رہے کہ یونائیٹڈ پریس کے مطابق گذشتہ مہینے کے اوائل میں شمالی کوریا کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے تجربے کے بعد امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا تھا کہ واشنگٹن، پیانگ یانگ کے ساتھ مذاکرات پھر سے شروع کرنا چاہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جان بولٹن نے ٹوکیو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں شمالی کوریا کو بیلسٹک میزائلوں کے تجربات سے منع کیا گیا ہے۔ شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائل کا جدید ترین تجربہ امریکہ کی جانب سے دو طرفہ مذاکرات کو حتمی شکست سے بچانے سے متعلق شمالی کوریا کے الٹی میٹم پر منفی ردعمل ظاہر کرنے کے بعد، کیا۔ شمالی کوریا نے دو طرفہ مذاکرات کو حتمی شکست سے بچانے کے لیے امریکہ کو رواں سال کے آخر تک کی مہلت دی تھی جسے امریکہ نے مسترد کر دیا۔
دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے عمل میں امریکہ کی رخنہ اندازیوں کے سبب، جنوبی کوریا کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر وسیع پیمانے پر گو ٹرمپ گو، اور نو ٹرمپ نو کے نعرے لگائے- مظاہرین کا خیال ہے کہ امریکی حکومت اپنی توسیع پسندانہ خصلت کے باعث شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کو ناکام بناکر، عملی طور پر شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کی جنوبی کوریا کی پالیسی کو بھی ناکام بنانے کے درپے ہے کہ جس کے نتیجے میں جزیرہ نمائے کوریا میں جنگ جیسی صورتحال دوبارہ لوٹ سکتی ہے-