شمالی شام پر ترکی کے حملے کے تعلق سے روس کا موقف
روس نے شام کی قانونی حکومت کے ایک اتحادی کی حیثیت سے ہمیشہ، دمشق کی اجازت کے بغیر اس ملک میں موجود غیرملکی فوجیوں کے نکل جانے اور شام کے اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی ہے-
شمالی شام پر ترکی کے حالیہ حملے کے بعد روسی حکام نے اس سلسلے میں موقف اپنایا ہے- روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ شام کے سلسلےمیں امریکہ کا مبہم اور غیر واضح موقف ، مذاکرات کے لئے اس ملک کی ناتوانی کو ظاہر کر رہا ہے-
لاوروف کا اشارہ، شمالی شام کے کرد نشیں علاقوں پر انقرہ کے حملے کے سلسلے میں واشنگٹن کے دوہرے موقف کی جانب ہے کہ جس میں ٹرمپ نے عملی طور پر ترک صدر رجب اردوغان کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو کے بعد اس علاقے سے امریکی فوجیوں کو نکال لینے اور شام پر ترکی کے حملے کے لئے حالات فراہم کردیئے- درحققیت لاووروف کا ماننا ہے کہ ٹرمپ نے نے انقرہ کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور شامی کردوں سے اپنے کئے گئے وعدوں کے برخلاف اپنے سابقہ وعدوں سے مکر گئے ہیں اور کردوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے- جیسا کہ شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے کہا ہے کہ امریکا نے کردوں کو دھوکہ دیا ہے، ان کی جھوٹی حمایت کی اور پھر انہیں اکیلا چھوڑدیا اور ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ، ایک قانونی حکومت کی قلمرو کے خلاف ، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ترکی نے شام پر جو حملے شروع کئے ہیں ، اس کے بارے میں روس نے خبردار کیا ہے- روسی صدر کے ترجمان ڈمیٹری پسکوف نے بدھ کو شام کے خلاف ترکی کے فوجی آپریشن کے نتائج کے بارے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی شام میں کردوں کے زیر انتظام جیلوں سے داعشیوں کو آزاد کرانے کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے- روسی حکام اس سے قبل بھی شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کی بابت خبردار کرچکے ہیں-
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ویسلی نبنزیا نے بھی شام کے خلاف ترکی کی اس جارحیت کو شام میں امریکی اتحاد کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ روسی مندوب ویسلی نبنزیا نے کہا کہ شام کے خلاف ترکی کی حالیہ فوجی جارحیت کی ذمہ داری امریکا اور ، نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد میں شامل بعض دیگر ملکوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔انھوں نے کہا کہ نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد نے داعش کے خلاف جنگ کے بجائے، شمالی شام میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ ترکی کی فوجی جارحیت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ۔ ویسلی نبنزیا نے کہا کہ ماسکو نے پہلے ہی نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد کے اراکین کو ان کی غلط پالیسیوں کے نتائج کی جانب سے خبردار کردیا تھا ۔انھوں نے کہا کہ نام نہاد داعش مخالف امریکی اتحاد نے شام میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا جو فتنہ بویا تھا آج اس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے-
واضح رہے کہ ترکی کی فوج نے بدھ کو دہشتگردی کے خلاف جنگ اور شام و ترکی کی سرحدوں سے دہشتگردوں کے صفائے کے بہانے ترک صدررجب طیب اردوغان کے حکم سے کرد ملیشیا پر حملہ کر دیا ہے۔ ترکی ، شامی کرد ملیشیا کو دہشتگرد قرار دیتا ہے۔ ترکی کے نائب صدر فواد اوکنائے نے ترکی کے فوجی حملوں کے بعد دعوی کیا کہ ترکی کے فوجی حملوں کا مقصد شام میں امن و امان کو بحال کرنا ہے۔
یہ کارروائیاں امریکی حکومت کی ہری جھنڈی سے شروع ہوئی ہیں جسے کردوں نے پیٹھ میں خجر گھونپنے سے تعبیر کیا ہے- فسد کے نام سے موسوم شام کی ڈیموکریٹیک فورس نے اعلان کیا ہے کہ وہ ترکی کے حملوں کو بھرپور جنگ میں تبدیل کردیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان حملوں میں اب تک چالیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ ترکی کی فوج گذشتہ تین برسوں میں اب تک کئی بار شام پر جارحیت کر چکی ہے۔
ترکی کی کاروائیوں کے سبب شامی عوام کے جانی اور مالی نقصانات اور ان علاقوں سے لوگوں کی دربدری کی جو نئی لہر شروع ہوئی ہے اس کے باعث روس نے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہےاسی سلسلے میں ماسکو ، شام کے شمال مشرقی علاقے کی صورتحال کے موضوع پر، شام کی حکومت اور کردوں کے درمیان مذاکرات کا خواہاں ہے- لاوروف نے کہا کہ کرد ملیشیا کے زیر انتظام علاقوں میں کشیدگی میں اضافے کی روک تھام ضروری ہے-
روس کے اس موقف کے باوجود ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ انقرہ جب تک کہ شمالی شام میں اپنے مدنظر اہداف، یعنی کرد ملیشیا کو نابود کرنے اور ایک محفوظ علاقے یا بفر زون کے قیام کو حاصل نہیں کرلے گا، اپنی فوجی کاروائی کو روکے گا- اس کے باوجود ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ ان کارروائیوں کے سبب، افراتفری پھیلنے اور عدم استحکام میں اضافے کے ساتھ ہی، داعش کے دوبارہ سرگرم ہونے اور کرد نشیں علاقوں میں انسانی المیہ رونما ہونے جیسے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے