Oct ۲۱, ۲۰۱۹ ۱۷:۳۲ Asia/Tehran
  • شام میں امریکی فورسیز کے تعلق سے ٹرمپ کی متضاد پالیسی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر 2018 میں شام سے امریکی فوج کے انخلا کا حکم صادر کیا تھا لیکن اندرون ملک مخالفتوں کے باعث اس مسئلے کو التوا میں ڈال دیا تھا- لیکن ترکی نے شمالی شام کے کرد نشیں علاقوں پر حملے کی دھمکی دے دی تو ٹرمپ نے انقرہ کو اس حملے کے لئے ہری جھنڈی دکھا کر ، امریکی فوج کے مکمل انخلا کا حکم صادر کردیا-

اس وقت موصولہ رپورٹوں سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ٹرمپ کہ جنہوں نے دوہفتہ قبل شام سے اپنے ملک  کے فوجیوں کے مکمل انخلا کا اعلان کیا تھا، ایک بار پھر تمام امریکی فوجیوں کو شام سے نکالنے کا اپنا نظریہ بدلتے ہوئے، فوجیوں کی ایک تعداد کو داعش سےمقابلے کے بہانے باقی رکھنا چاہتے ہیں- امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکہ کے ایک اعلی عہدیدار کے حوالے سے لکھا ہے کہ ٹرمپ گذشتہ ہفتے سے اس کوشش میں ہیں کہ تقریبا دوسو فوجیوں کو شام کے شمال مشرقی علاقے میں دہشت گردی سے مقابلے کے لئے تعینات کریں-

اس عہدیدار کے بقول امریکی فورسیز کہ جو شام میں تعینات ہوں گی وہ عراق سے ملحقہ سرحدوں پر اوراس سیف زون کے باہر تعینات ہوں گی کہ جس کے بارے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ٹرمپ کے درمیان سمجھوتہ طے پایا ہے- شام کے شمال مشرقی علاقے میں سیکڑوں فوجیوں کی موجودگی کے تعلق سے ٹرمپ کی موافقت کی صورت میں ، 2019 کے آغاز سے یہ دوسری بار ہوگا کہ امریکی صدر، شام سے امریکی فورسیز کے مکمل انخلا  کے اپنے حکم کو عملی طور پر منسوخ کر رہے ہیں- نیویارک ٹائمز نے بھی دعوی ہے کہ اس مختصر سی فوج کو شام میں رکھنے کا مقصد شام اور عراق میں داعش کی واپسی کی روک تھام کرنا ہے لیکن امریکہ اس اقدام سے بالاتر ایک اور اہم ہدف کے درپے ہے اور وہ، شام کے شمال مشرقی علاقے میں تیل کے کنووں پر اپنا کنٹرول مستحکم کرنے میں کردوں کی مدد کرنا ہے-

علاقائی سطح پر وعدوں میں کمی لانے کے بارے میں ٹرمپ کا نقطہ نظر اس بات کا باعث بنا کہ وہ غیر متوقع فیصلے میں 19 دسمبر 2018 کو یہ اعلان کردیں کہ شام سے امریکی فوجیوں کو نکال رہے ہیں- ٹرمپ نے داعش کے مقابلے میں اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ اب شام میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی ان کو کوئی وجہ نظر نہیں آتی- ٹرمپ نے اسی طرح یہ دعوی کیا کہ داعش کے ساتھ امریکہ کی جنگ کا فائدہ، محض دشمنوں اور امریکہ کے بین الاقوامی وعلاقائی حریفوں یعنی ایران اور روس کو پہنچا ہے- اس کے باوجود ٹرمپ نے اندرون ملک دباؤ اور واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کے دباؤ میں آکر، شام سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے کے اپنے سابقہ موقف سے پسپائی اختیار کرلی- لیکن شمالی شام پر ترکی کے حملے کے بعد، ٹرمپ کو ایک بار پھر شام سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے کا موقع ہاتھ آگیا-

 شام سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کے لئے ٹرمپ کے فیصلے پر بہت زیادہ منفی ردعمل سامنے آیا ہے اور اندرون ملک سیاستدانوں نے چاہے وہ ریپبلیکن سے ہوں یا ڈموکریٹ سے ، شام سے امریکی فوجیوں کے نکالے جانے کے ٹرمپ کے فیصلے کو مکمل پسپائی قرار دیا ہے کہ جو کسی بھی ممکنہ خطرات کو دھیان میں رکھے بغیر انجام پائی ہے اور یہ مسئلہ واشنگٹن اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے لئے برے نتائج کا حامل ہوگا- 

امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پلوسی کے بقول اس غیر دانشمندانہ اور گمراہ کن فیصلے سے ، روس اور ایران اور اسی طرح ہمارے اتحادیوں کو یہ خطرناک پیغام مل رہا ہے کہ امریکہ اب قابل اعتماد شریک نہیں ہے- ساتھ ہی یہ مسئلہ مغربی ایشیا کے بارے میں مغرب کی علاقائی اسٹریٹیجی سے متصادم ہے کہ جس کا ذکر اعلی دستاویزات جیسے امریکہ کی 2018 کی قومی سلامتی کی اسٹریٹیجی میں ہوا ہے- امریکی سینیٹ کے ریپبلیکن لیڈر میچ مک کینل کے بقول امریکی فوج کا شام سے نکلنا امریکہ کے قومی مفادات میں نہیں ہے-

اس وقت ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقے میں امریکی فوج کی ایک تعداد کو تعینات کرنے کا ٹرمپ کا فیصلہ، اپنے خلاف ہونے والی تنقیدوں کو کم کرنے کے مقصد سے لیا گیا ہے - ساتھ ہی اس مسئلے سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ شام کے بارے میں ٹرمپ کا نظریہ متضاد ہے اور وہ اس سلسلے میں کوئی واضح موقف نہیں رکھتے-   

 

ٹیگس