کثیرالجہتی رجحان کی ضرورت پر جواد ظریف کی تاکید
عالمی معاشرے میں یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں کثیرالجہتی رجحان، ایک ضرورت میں تبدیل ہوگیا ہے-
یہی موضوع تہران میں "چند قطبی نظام اور بین الاقوامی قوانین" کے زیرعنوان منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی تقریر کا محور تھا- اس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جواد ظریف نے کہا کہ حکومتیں اب اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ وہ اکیلے اپنی مشکلات حل نہیں کرسکتیں اور نہ ہی اکیلے قانون شکنی کرنے والی قوتوں کو لگام دے سکتی ہیں اس لئے اب وہ چند قطبی نظام کی جانب مائل ہورہی ہیں -
لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی معاشرے میں کثیرالجہتی کی جانب رجحان میں تبدیلی کی کیا وجوہات ہیں اور یکطرفہ پسندی کے کیا نقصانات ہیں ؟
وزیرخارجہ ڈاکٹر جواد ظریف نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ موجودہ معروضی حالات میں چند جانبہ نظام کا پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ احساس کیا جارہا ہے کہا کہ حکومتیں اکیلے دم پر پوری دنیا کے لئے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ہیں کیونکہ اب ایسا کرنے کا دور ہی ختم ہوچکا ہے۔
موجودہ حالات میں کہ جب دنیا میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیاں اور اس کے اثرات، تیزی سے عالمی برادری پر آشکارہ ہو رہے ہیں ڈاکٹر جواد ظریف کا بیان بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے- اس مسئلے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تاکید کی اور اس پر توجہ دلائی-
صدر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ امریکہ کی یکطرفہ پسندی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں سے واشنگٹن بے توجہی برت رہا ہے اور کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے- ان اقدامات سے نہ صرف عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی پوزیشن بھی اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے- سلامتی کے مسئلے میں بھی امریکہ کبھی بھی علاقے میں پائیدار سلامتی اور عالمی امن کے درپے نہیں رہا ہے- درحقیقت امریکہ کے یکطرفہ رویے اور اقدامات، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے کردار کے کمزور ہونے کا باعث بنے ہیں-
بین الاقوامی امور کے ماہر سید محمد باقر نوربخش ان مواقف کا، کثیرالجہتی سے یکطرفہ پسندی کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کے فروغ پر ایران کی تاکید اورعلاقے کے تمام ملکوں کی مشارکت سے خلیج فارس کے خطے کے لئے ایک مشترکہ میکانزم کا قیام، خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی حفاظت، اور اس اہم آبی گذرگاہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کی کسی بھی کوشش کا مقابلہ کرنے جیسے اقدامات، ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسیوں، جنگ پسندی اور منھ زوریوں کے مقابل میں ہیں-
وہ چیز جو عالمی برادری کے لئے اہمیت رکھتی ہے ، بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی، اعتماد کی بحالی اور مذاکرات ہیں- ظریف کا بیان بھی تہران کی کانفرنس میں ان ہی حقائق کا آئینہ دار ہے-
وزیرخارجہ جواد ظریف نے امریکا کے ذریعے اپنی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے فوجی اخراجات پر صرف کی جانے والی رقومات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکی حکومت نے اربوں ڈالر فوجی اخراجات میں خرچ کرڈالے لیکن وہ اب بھی اپنے شہریوں کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی حکومت تنہا اپنے مفادات حاصل نہیں کرسکتی اور نہ ہی خطرات کا مقابلہ کرسکتی ہے -
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اسحاق آل حبیب نے بھی پیر کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی چوتھی کمیٹی کے اجلاس میں اسی سلسلے میں خبردار کرتےہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کے شرمناک یکطرفہ اقدامات عالمی سطح پر ، امن و سلامتی کے لئے خطرناک نتائج کےحامل ہوسکتے ہیں-
لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح سے یکطرفہ پسندی کا مقابلہ کیا جائے؟ حالیہ برسوں کے تجربے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ خودمختار و آزاد ممالک کا باہمی تعاون ، یکطرفہ پسندی کے مقابلے کے لئے ان ملکوں کو طاقتور بنا سکتا ہے- اسلامی جمہوریہ ایران نے اس سلسلے میں شام اور عراق میں علاقے کے بحرانوں کے تعلق سے فعال کردار ادا کرتے ہوئے ، کثیرالجہتی اقدامات کے موثر ہونے کو ایک کامیاب تجربے کی صورت میں پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے-
البتہ اس راہ میں قدم اٹھانے میں بہت زیادہ سختیاں اور دشواریاں ہیں- عالمی طاقتیں چند قطبی نظام یا کثیرالجہتی کی جانب چندان دلچسپی اور رجحان نہیں رکھتیں اور وہ اجارہ داری میں اپنے مفادات دیکھتی ہیں- لیکن علاقے کی تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں کثیرالجہتی رجحان سے نئی گنجائشیں وجود میں آسکتی ہیں کہ جو عالمی طاقتوں کے عزائم سے بالاتر ہیں- اسی سلسلے میں جواد ظریف نے مغرب مائنس دنیا کی عبارت کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کے بغیر دنیا کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو سارے واقعات مغرب میں پیش آتے ہیں اور نہ ہی مغرب پوری دنیا کے لئے اکیلے فیصلہ کرسکتا ہے -