Dec ۲۲, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۷ Asia/Tehran
  • ہندوستانی وزیر خارجہ کا دورۂ ایران

گذشتہ دنوں میں تہران نے افغانستان کے بعض پڑوسی ملکوں کے سیکورٹی حکام اور سلامتی کونسل کے سیکریٹریز کی میزبانی کے فرائض انجام دیئے ہیں- اور آج اتوار کو تہران، ہندوستان کے وزیر خارجہ کا میزبان ہے-

 ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامینیم جے شنکر تہران میں ایران اور ہندوستان کے انیسویں مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں شرکت کرنے کے علاوہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور صدر حسن روحانی سے ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی مسائل اورعالمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے- ایران اور ہندوستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان اس سے قبل بھی توانائی کے مسئلے سمیت افغانستان کے حالات اور چند جانبہ علاقائی تعاون کے سلسلے میں مشترکہ اجلاس منعقد ہوئے ہیں - یہ دورہ بھی دوطرفہ تعلقات اور دونوں ملکوں کے سیاسی و اقتصادی تعاون کے دائرے میں قابل غور ہے- 

ہندوستان دنیا کے سب سے بڑے تیل صارفین میں سے ایک ہے- اس لئے یہ بات فطری ہے کہ ہندوستان کی توانائی تک دسترسی میں کسی بھی طرح کی مانع تراشی، اس ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے- اسی وجہ سے ہندوستان، ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے فروغ اور اس کی بقا کو خاص اہمیت دیتا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران نے چند جہتی علاقائی تعاون کے سلسلے میں، افغانستان اور وسطی ایشیاء تک ہندوستان کی رسائی کو آسان بنایا ہے اور یہ مسئلہ بھی مشترکہ علاقائی اسٹریٹجک مفادات کی فراہمی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے-

اسی بنا پر علاقائی سلامتی سے متعلق دوسرا بین الاقوامی اجلاس تہران میں بدھ  18 دسمبر کو ہوا جس میں ایران روس، چین، ہندوستان، افغانستان، تاجیکستان اور ازبکستان کے قومی سلامتی کے امور کے مشیران اور سیکورٹی کونسلوں کے سیکریٹریز شریک تھے- اس اجلاس کے اختتامی بیان کی تیسری شق میں علاقے اور دنیا کے ملکوں کی معاشی ترقی میں توانائی کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علاقے میں تیل کی منڈی تک آزادانہ رسائی کے لئے تیل درآمد کرنے والے ملکوں کے حق اور تیل کی مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے، تیل اور گیس برآمد کرنے والے سبھی ملکوں کے حق پر تاکید کی گئی ہے- اس تاکید سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توانائی کی فراہمی اور چابہار بندرگاہ نیز شمال جنوب کوریڈور کے ذریعے ایران کی ٹرانزٹ راہداری اور پٹرولیم اشیا تک رسائی، ایران کے پڑوسی ملکوں کے لئے اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل ہے-

ان مسائل کے پیش نظر ہندوستان کے وزیر خارجہ کا دورۂ ایران ، ایک نقطۂ نظر سے تہران اور نئی دہلی کے تعلقات میں فروغ کے دائرے میں قابل غور ہے جبکہ دوسرے نقطۂ نگاہ سے علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر ایران اور ہندوستان کی علاقائی سفارتکاری کے دائرے میں یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے- 

سیاسی مسائل کے ماہر وحید دینداری اس سلسلے میں کہتےہیں: ہندوستانی حکام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات میں ہندوستان کے مفادات منجملہ تیل کی فراہمی اور اشیا کی نقل وحمل اس سطح پر ہے کہ اس سے وہ چشم پوشی نہیں کر سکتے- ہندوستانی وزیرخارجہ کا دورۂ تہران درحقیقت ایک ایسے وقت میں انجام پا رہا ہے کہ دونوں ملکوں نے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے اوروہ باہمی تعاون کی مزید راہیں تلاشنے کے درپے ہیں-

اقتصادی مسائل کے ماہر سرجیت ایّر،ایران سے ہندوستان کے لئے تیل کی برآمدات یا ان دونوں ملکوں کے تجارتی لین دین میں، ہندوستان کے لئے ایران کی اہمیت کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:

اگر ہندوستان کے اتحادی ممالک منجملہ امریکہ ، تہران کے ساتھ نئی دہلی کے اچھے تعلقات پر اعتراض کرنا چاہیں تو ہندوستان کو سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ان کے مطالبات کے سامنے تسلیم نہیں ہونا چاہئے- اس میں شک نہیں کہ ہندوستان اس طرح کا موقف اپناکر فائدے میں رہے گا ورنہ پھر وہ اپنے اتحادیوں اور عالمی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی متغیر پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ جائےگا- اگرہندوستان یہ کام نہیں کرسکا تو پھر وہ ایک سنہرا موقع ہاتھ سے دےدےگا-

یہ مذاکرات اور آمد و رفت ایسی حالت میں انجام پار ہی ہےکہ امریکہ اپنے یورپی اور ایشیائی اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ تاکہ ایران کو اپنے زعم ناقص میں الگ تھلگ کردیں- لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ایک بااثر ملک کی حیثیت سے بدستور علاقے کی تبدیلیوں پر اثرانداز ہے- اسی سلسلے میں گذشتہ ہفتے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی ، کوالالامپور کے اجلاس میں شرکت کے بعد جاپان بھی گئے- یہ ایسے میں ہے کہ مشرقی ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات میں تو سیع، ان دوروں میں مذاکرات کا اہم محور تھا- اور اس عمل میں ہندوستان کا بھی ایک بڑا حصہ ہے- اس نقطۂ نگاہ سے تہران میں ہندوستان کے وزیر خارجہ کے مذاکرات اور دونوں ملکوں کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کا انعقاد ، اس سلسلے میں تہران اور نئی دہلی کے پختہ عزم کا آئینہ دار ہے-     

   

 

 

ٹیگس