Feb ۱۷, ۲۰۲۰ ۱۵:۴۲ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے بارے میں یورپ کے رویے پر جوزف بورل کی تنقید

یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی ، فرانس اور برطانیہ کا ایٹمی معاہدے کے حصول میں اہم کردار تھا لیکن ان ملکوں نے اس معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد اس کے تحفظ کے بارے میں منفی اور ناقابل دفاع رویہ اپنایا ہے- اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ حتی یورپی یونین کے حکام نے بھی اس کا اعتراف کیاہے-

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل نےاتوار کو میونیخ سیکورٹی کانفرنس میں ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں یورپی یونین کے رویے پر تنقید کی - بورل نے کہا کہ ہم ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں رہے ہیں اور ایران کے لئے یورپ کا مخصوص مالیاتی نظام  انسٹیکس بھی ابھی تک نتیجہ بخش نہیں رہاہے- اس کے باوجود یورپ کے نقطۂ نظر سے ابھی ایٹمی معاہدہ ختم نہیں ہوا ہے- بورل نے واشنگٹن کے ساتھ یورپ کے بعض نظریاتی اختلافات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ایٹمی معاہدے کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی تائید بارک اوباما نے کی تھی- اسی طرح امریکہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر زور دے رہا ہے لیکن یورپ ایسا نہیں کرے گا- بورل کا اشارہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی جانب ہے کہ جس کی یورپ نے موافقت نہیں کی ہے اس لئے کہ یورپ کی نظر میں یہ کام نہ صرف امریکہ کے سامنے ایران کے  جھکنے کا باعث نہیں بنا ہے بلکہ اس نے ایٹمی معاہدے کو ایک پیچیدہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے-

جیسا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے ایک سینئر عہدیدار کی حیثیت سے بورل نے اعتراف کیا ہےکہ یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا نے امریکی دباؤ میں آکر ، ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے خاص طور پر ایران کے ساتھ انسٹیکس مالیاتی نظام پر عملدرآمد سے بھی اجتناب کیا ہے- ایٹمی معاہدے پر عمل نہ کرنا اور ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا عمل جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ایران امریکہ کے ان مطالبات کو تسلیم کرے کہ جو امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے مئی 2018 میں کئے تھے-

ساتھ ہی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد یورپی ملکوں کے مواقف کا جائزہ لینے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ممالک ایران سے کئے گئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناتواں رہے ہیں- یورپی ٹرائیکا نے اسی طرح ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدوں کے تعلق سے قدم بہ قدم کمی لانے کو بہانہ قرار دے کر چودہ جنوری کو نیوکلیر ڈسپیوٹ میکنیزم کو فعال بنانے کا اعلان کیا تھا - یورپی ملکوں نے ایران کی جانب سے پانچ مرحلوں میں ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی لانے کے اقدام کی مذمت کی اور تہران سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عمل کو روک کر دوبارہ معاہدے کی اصلی حالت پر لوٹ آئے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران نے اپنے قومی مفادات کے دائرے میں ایٹمی معاہدے پرعملدرآمد کو قبول کیا تھا اور اسے امید ہے کہ گروپ فور پلس ون خاص طور پر یورپی ممالک ایٹمی معاہدے کے ذیل میں اپنے وعدوں کو پورا کریں گے- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی کے بقول ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کا تہران کا اقدام اس معاہدے کے دائرے میں اور اس کے تحفظ کےلئے ہے اور ایران بدستور مسائل کے حل کے لئے یورپی یونین کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے-

ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک اپنے اسٹریٹیجک صبر کا مظاہرہ کیا تاکہ ایٹمی معاہدے کے باقی ماندہ فریق ممالک، امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے نتائج کی تلافی کریں- لیکن امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے بعد یورپی ملکوں نے اس معاہدے کے دائرے میں کچھ نہیں کیا بلکہ امریکہ نے اپنی غیرقانونی اور غیر انسانی پابندیوں میں شدت پیدا کردی- ان پابندیوں کا اثر غذائی اشیاء ، دواؤں اور حتی ایران کے ایٹمی سیفٹی نظام پر بھی پڑا ہے- ایران نے اب تک، یورپ کے موقف میں کوئی واضح علامت نہیں دیکھی ہے- یورپی ملکوں کو چاہئے کہ وہ بیان بازی کرنے کے بجائے، چند فریقی معاہدے کے تحفظ کے لئے اپنے ٹھوس عزم کو ثابت کریں-

ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے نئی دہلی میں رائے سینا ڈائیلاگ فورم کے اجلاس کے موقع پر یورپی یونین کے شعبہ خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل سے ملاقات میں بھی کہا تھا کہ یورپی ٹرائیکا کو چاہئے کہ وہ ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں اپنا رویّہ درست کرلے - انہوں نے جوزف بورل سے دوٹوک اور مدلل گفتگو کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے تعلق سے یورپی ملکوں کے اقدامات اور رویّوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ڈسپیوٹ میکینزم کو فعال کرنے کے سلسلے میں تین یورپی ملکوں کا اقدام غیر قانونی اور ان کے دعوے بے بنیاد ہیں - جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں ایران کی جانب سے نظرثانی کا بیان ، کہ جس پر ایرانی پارلمینٹ کے اراکین نے بھی تاکید بھی کی ہے ، موجودہ حالات کے تناظر میں قابل غور ہے-

 

 

   

ٹیگس