Nov ۱۶, ۲۰۱۵ ۱۰:۲۷ Asia/Tehran
  • کشمیر میں17 سال قبل 19افراد کا اجتماعی قتل عام پراحتجاجی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
    کشمیر میں17 سال قبل 19افراد کا اجتماعی قتل عام پراحتجاجی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

متاثرین کو سوائے مایوسی کچھ نہ ملا ، اب احتجاجی مہم شروع کرنے کا اعلان

سرینگر - دلاور حسین
*سحر عالمی نیٹ ورک کا مضمون نگار سے ہم خیال ہونا ضروری نہیں-


جموں کشمیر میں سرکاری وردی پوشوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک طویل ترین فہرست ہے۔ تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ ان واقعات میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو کبھی بھی سزا نہیں سنائی گئی اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان نظر آرہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب متاثرہ خاندانوں نے ہر طرف سے ناامید ہوکر احتجاج کی راہ اختیار کرلی ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ اگست 1998میں سرحدی ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ میں پیش آیا جہاں ایک ہی خاندان کے 19 افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعہ میں سرنکوٹ کے سیالاں میں 3 اور 4 اگست کی درمیانی شب کو 13 معصوم بچوں اور خواتین سمیت 19 افراد کوموت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ تب سے لے کر اب تک مارے گئے افراد کے لواحقین نے انصاف کی خاطر ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا تاہم انہیں ہر طرف سے مایوسی ہی ہاتھ آئی۔

اب انہوں نے ناامید ہوکر احتجاج  کی راہ اختیار کی ہے اور اس بات کا عزم کیا ہے کہ انصاف ملنے تک یہ مہم جاری رہے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ دنوں بھی سرنکوٹ میں احتجاج کیا جس دوران ہاتھوں میں ”ظالمو جواب دو۔ خون کا حساب دو“، ”ہم کیا چاہتے ہیں۔ انصاف“،”CBI ہوش میں آﺅ“ جیسے نعروں والے بینر اٹھارکھے تھے۔

متاثرین نے مطالبہ کیا کہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی عدالتی احکامات کے تحت اس کیس کی تحقیقات میں سرعت لائے۔ ان کا الزام ہے کہ سی بی آئی ان کے خلاف بے بنیاد گواہوں کو تیار کر کے کیس کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے اور ملزمان کو، جن کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے، گرفتار نہیں کیا جارہا۔ واقعے کے عینی شاہدین اور متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ سیالاں میں ٹاسک فورس کے ساتھ کام کر رہے ایس پی اوز کے ایک گروپ نے جس کی قیادت ذاکر نامی ایک ایس پی او کر رہا تھا، ہرطرف خوف و ہراس پھیلاکے رکھا تھا اور دن دھاڑے وہ کھلے عام کسی بھی گھر میں داخل ہوکر نہ صرف خواتین کی تذلیل کرتے تھے بلکہ دکانداروں، تاجروں اور عام لوگوں کو بھی پریشان کرکے رکھا تھا، حتیٰ کہ کئی طالبات نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی دوران امتیاز احمد نامی ایک جنگجو نے ذاکر پر گولیاں چلاکر اس کو ہلاک کیا- جس کی وجہ سے مقامی فوجی کیمپ کے افسران اور ٹاسک فورس آتش پا ہوگئے۔

محمد لطیف اور عبدالاحد شیخ کے مطابق 3 اور 4 اگست کی درمیانی شب کو تینوں خاندانوں کے اہل خانہ، حسن محمد اور احمد الدین شیخ کے گھر میں جمع ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی اور جب انہوں نے دروازہ کھولا تو محمد رفیق پٹھان اور محمد یونس، عرف ٹائیگر نامی 2 ایس پی او جو مارے گئے، ذاکر کے قریبی ساتھی تھے، اندر داخل ہوئے اور باہر 10 سے 15 لوگ فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران انہوں نے مکان کی تلاشی لی اور امتیاز کے بارے میں پوچھ تاچھ کی۔

محمد شبیر کا کہنا تھا کہ 2 ایس پی او مقصود احمد خان اور محمد اکبر ملک امتیاز کے بھائی مقصود کو لے کر ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور اس موقعے پر انہوں نے فوجی وردیاں پہنی تھیں۔ شبیر کے مطابق باہر صحن میں بھی کچھ وردی پوش اہلکار موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران ایک آفیسر نے امتیاز کے والد کو اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا اور جواب سن کر میجر گورو تلملا اٹھا اور انہوں نے امتیاز کے والد سے مخاطب ہوکر کہا کہ ذاکر میرا مخبر تھا اور اگر ہماری یونٹ کا کمانڈنگ آفیسر بھی ہلاک ہوتا تب بھی مجھے اتنا دکھ نہیں ہوتا- جس کے ساتھ ہی انہوں نے ٹائیگر نامی ایس پی او کی طرف اشارہ کیا جس نے امتیاز کے والد کے پیر میں گولی مار دی۔

انہوں نے کہا کہ یہ منظر دیکھ کر میرے والد سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے اس آفیسر کا گریبان پکڑ لیا- جس کے دوران میں دروازے تک پہنچ چکا تھا اور باہر مکئی کی فصل میں چپکے سے کود پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اسی دوران اندھا دھند فائرنگ ہوئی اور میں رات بھر مکی میں ہی رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے روزمیں جب کمرے میں داخل ہوا تو وہاں پر ہر طرف  خون ہی خون نظر آرہا تھا جبکہ لاشوں کی گنتی بھی نہیں کر پایا۔

ٹیگس