May ۰۴, ۲۰۱۷ ۱۸:۲۶ Asia/Tehran
  • معاشرے میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر صدارتی امیدواروں کی تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی الیکشن کے سبھی امیدواروں نے معاشرے میں خواتین کو برابر سے اور مساوی کردار ادا کئے جانے کا موقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے

چودہ روز کے بعد ایران کے عوام شہری اور دیہی کونسلوں اور صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ میں حصہ لیں گے۔ جیسے جیسے انیس مئی کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے، ملک بھر میں سیاسی جوش اور ولولے میں اضافہ اور انتخابی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔شہری اور دیہی کونسلوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل امیدوار نو روز کے بعد یعنی گیارہ مئی سے اپنی انتخابی مہم شروع کریں گے۔ لیکن صدارتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم دس روز پہلے شروع ہوچکی ہے اور ملکی آئین میں ہر نامزد امیدوار کو قومی سطح پر اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے مساوی حق دیا گیا ہے اور اسی حق کے تحت قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تمام چھے امیدواروں کے پروگرام نشر کر رہا ہے۔ قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنی انتخابی مہم چلانے کی غرض سے ہر امیدوار کے لیے ایک ہزار ایک سو دس منٹ مختص کیے گئے ہیں۔ صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شریک تمام امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اہم مسائل کو اٹھایا ہے اور خواتین اور خاندان پر خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ اسلامی معاشرے میں خواتین اور خاندان کو اہم مقام حاصل ہے۔ اسلامی جہموریہ ایران، خاندان کو معاشرے کا بنیادی ستون اور انسان کی ترقی و پیشرفت کاگہوارہ سمجھتا ہے۔ ایران کا اسلامی جمہوری نظام خاندان اور کنبے کی تشکیل کو، جس سے انسان کے تکامل اور پرورش کا راستہ ہموار ہوتا ہے انتہائی اہمیت دیتا ہے اور خاندانی نظام کی حمایت کو اسلامی حکومت کی اہم ترین ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ بارہویں صدارتی الیکشن کے ایک امیدوار سید ابراہیم رئیسی نے خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خواتین کو اہم کردار حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے بارے میں میرا نظریہ وہی ہے جو اسلامی شریعت کا نظریہ ہے۔ اسلامی شریعت ، مرد و زن کے درمیان جسمانی تفاوت کا ضرور قائل ہے لیکن انسان ہونے کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور ہر عورت کو پاکیزہ اور خوشحال زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ، خواتین کو سیاسی اور جماعتی سیاست میں الجھنا نہیں چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے مسائل کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں دوسروں کے مفادات اور  منصب کے استحکام کے لیے بطور ہتکھنڈا استعمال نہ کیا جائے۔ تہران کے میئر اور صدارتی امیدوار محمد باقر قالی باف نے کہا کہ وہی معاشرہ کامیاب معاشرہ کہلاتا جو اپنی بھر پور افرادی قوت سے کام لینے کے قابل ہو اور خواتین کو بھی تمام شعبوں میں کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ عورت یا مرد ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ  کہاں پر کس کا کردار بہتر اور موثر واقع ہوسکتا ہے۔ خواتین کو معاشرے کے تمام شعبوں میں مشارکت کا حق حاصل ہے اور اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ ایک اور صدارتی امیدوار مصطفی میر سلیم نے معاشرے میں خواتین کے کردار کے بارے میں کہا کہ ہمارے ملک کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اگر چہ خواتین کا اہم کردار گھر اور گھرانے میں ہے اور وہ  بیوی اور ماں کی حثیت سے اہم ترین ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ ملک کی ترقی میں بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک اور صدارتی امیدوار سید مصطفی ہاشمی طبا نے خواتین کے بارے میں اپنے خیالات اس طرح بیان کیے ۔ انہوں نے کہا کہ خاندان اور سماج میں خواتین کی عظمت اور حقیقی کردار کے حوالے سے فی الحال متضاد رویوں کا مشاہدہ کیا جارہا ہے جبکہ اسلام نے خاندان اور کنبے کی تشکیل اور ملک کی ترقی میں خواتین کے کردار کے حوالے سے جامع اور اسٹریٹیجک نظریات پیش کیے ہیں اور وہ اپنی حکومت میں خواتین کے کردار پر بھرپور توجہ دیں گے۔ موجودہ نائب صدر اور صدارتی امیدوار اسحاق جہانگیری نے خواتین کے بارے میں کہا کہ خواتین کے کردار کے بغیر، معاشرے کی کوئی مشکل حل نہیں ہوسکتی۔ اسلامی ایران کی تاریخ اور تہذیب میں خواتین کو اعلی مقام حاصل رہا ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد بھی خواتین اعلی سیاسی اور سماجی عہدوں پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خواتین، تمام میدانوں میں، سیاست سے لیکر سماج ، اور کھیل سے لیکر فن و ہنر کے دیگر شعبوں میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اور حتی عالمی سطح پر بھی قابل فخر کارنامے انجام دے رہی ہیں اور میں ہمیشہ ایسی خواتین پر فخر کرتا ہوں بنا برایں میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے کردار کو اجاگر کریں اور ان کے حقوق کی بالادستی میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ موجودہ صدر حسن روحانی بھی صدراتی امیداورں میں شامل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خاندان میں خواتین کے کردار اور عظمت کو تحفظ فراہم کرنا ان کی حکومت کے پروگراموں میں سرفہرست ہے- انہوں نے کہا کہ خواتین کے مطالبات پر توجہ اور ان کے حقوق کا تحفظ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کا یہ شکوہ بجا ہے کہ ان کی خدمات کو اجاگر نہیں کیا جاتا حالانکہ خواتین کو اسلام کے دائرے میں اپنے کردار کے تعین کا حق ملنا چاہیے اور مردوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کام میں خواتین کا ساتھ دیں۔

آخر میں سماجی زندگی کے اہم ترین ستون یعنی خواتین اور خاندان کے بارے میں اسلام اور اسلامی نظام کے نطریات کی جانب مختصر اشارہ کیا جائے۔ بلاشبہہ اسلامی جمہوری نظام میں اسلامی تعلیمات کےزیرسایہ خواتین کو اہم مقام و مرتبہ حاصل ہے چنانچہ ایک مقام پر رہبر انقلا اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں  کہ، خواتین اسلامی ماحول میں علمی اورسائنسی ترقی کرتی ہیں، ان کی شخصیت نکھرتی ہے، اخلاقی بلندی حاصل کرتی ہیں اور سیاسی شعور حاصل کرتی ہیں اور سماج کے بنیادی مسائل کے حلے میں پیش پیش نظرآتی ہیں۔لیکن وہ بطور عورت باقی رہتی ہیں، عورت ہونا عورت کےلئے ایک امتیاز ہے۔ ایک وقار ہے آپ نے فرمایا کہ عورت کا وقار یہ نہیں ہے کہ اسے ، زنانہ ماحول، زنانہ خصوصیات اور زنانہ کردار اور رویّوں سے دور کردیا جائے، یا گھرداری، پچوں کی پرورش، شوہر کی خدمت کو اس کے لیے ننگ و عار قرار دے دیا جائے، مغربی تہذیب نے خاندان کا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ آج مغربی دنیا کی اہم ترین مشکل یہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ بکھر گیا ہے، بے سرپرست بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ مسائل مغرب کو اپنی گرفت میں لے لیں گے۔

ٹیگس