ایران سے مذاکرات کے لئے امریکی اضطراب
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بارہا کہہ چکے ہيں کہ امریکا کی موجودہ حکومت بھی ایران سے گفتگو کی بارہا کوشش کر چکی ہے ۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعرات کو بھی اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت گفتگو کی کوشش امریکا کر رہا ہے، ایران نہیں اور حالت یہ ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھ سے ملاقات کے لئے پانچ ممالک کے سربراہوں کو ثالثی کے لئے تیار کیا تاہم امریکا سے کوئی بھی گفتگو تب تک نہیں ہو سکتی جب تک امریکا ایٹمی معاہدے میں واپس نہیں آتا، اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا اور ایٹمی معاہدے سے باہر نکلنے کا تاوان ادا نہیں کرتا ۔
سوال یہ کہ اگر امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتی ہے اور سربراہوں سے پیغام پہنچا رہی ہے تو اس نے ایران سے کئے گئے ایٹمی معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور طریقہ کار پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ سابق صدر باراک اوباما کی ہر پالیسی اور ان کے ذریعے کئے گئے ہر کام کی مخالفت کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ اس لئے حال ہی میں سابق صدر باراک اوباما نے ٹرمپ کے رویے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اب یہی کام رہ گیا ہے کہ محنت سے تیار کی گئی چيزوں اور دستاویزوں کو پارہ پارہ کرکے پھینک رہے ہیں ۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالت پر نظر ڈالی جائے تو ان کی دلی آرزوں کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ فوری طور پر بڑی کامیابیاں حاصل کرنا یا حاصل کرنے کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں ۔
شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ ان سے ان کی حالیہ ہنوئی سربراہی ملاقات اور اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کو کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے کی کتنی جلدی ہے ۔ دونوں ممالک کے مواقف میں ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پایا جاتا ہے اور کسی بھی سمجھوتے کے امکان بہت کم تھے تاہم مذاکرات سے پہلے اور مذاکرات کے پہلے دن اس طرح ماحول بنایا گیا کہ جیسے کچھ بڑا ہونے والا ہے لیکن ہوا کچھ بھی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے سے کسی بڑے معاہدے کے لئے کوئی ٹھوس کام ہوا ہی نہیں تھا۔ ہنوئی مذاکرات جس طرح ہو رہے تھے اسی طرح واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق پرائیویٹ وکیل کانگریس میں بیان دے رہے تھے اور ٹرمپ کو نسل پرست، دھوکے باز سمیت سب کچھ کہہ رہے تھے۔ شاید ٹرمپ کی یہ کوشش تھی کہ اس وقت امریکی عوام کی توجہ مائیکل کوہن کے بیان پر نہیں بلکہ ہنوئی میں ہونے والے مذاکرات پر موکوز رہے تاہم یہ نہیں لگتا کہ ٹرمپ اس میں کامیاب ہوئے ہوں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے مسئلے میں بھی یہی صورتحال ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان شدید بے اعتمادی پائی جاتی ہے۔ ایٹمی معاہدہ ہونے کے بعد ایک اچھا موقع تھا جس سے استفادہ کرکے امریکا یہ پیغام دے سکتا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں اس کی مخاصمانہ پالیسیاں بدلنے جا رہی ہیں جو گزشتہ چالیس سال سے چلی آ رہی تھیں تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے رویے اور اوباما سے اپنی شخصی دشمنی سے اس موقع کو ہاتھ سے گنوا دیا ۔
اس سب کے بعد اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات کرنا چاہتے ہین اور اس کے ئے سربراہوں سے ثالثی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب صاف یہی ہے کہ وہ اپنے سامنے موجود سخت مصیبتوں کے دوران کوئی کامیابی حاصل کرنے کے درپے ہیں، ایسی کامیابی جس کی اہمیت صرف پروپیگینڈے کی حد تک ہو تاہم ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان کے سامنے ایران ہے جو ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اور جس کے مواقف پورے مشرق وسطی میں اپنے اثرو رسوخ کا دائرہ پھیلا چکے ہیں ۔ ایران سے مذاکرات کے لئے ضروری ہوگا کہ امریکا اپنے رویے میں بنیادی تبدیلی لائے ۔