ایران ایٹمی معاہدے پر کاربند ہے ، یورپی یونین خارجہ پالیسی چیف
یورپی یونین کے شعبہ خارجہ پالیسی کی سربراہ فدریکا موگرینی اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکوماس نے جامع ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ فرانس کے صدر نے یورپ کے لئے تہران کے الٹی میٹم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
لگسمبرگ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اب تک جوہری معاہدے سے متعلق کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔انہوں نے دعوی کیا کہ یورپی یونین کی ساری توجہ اس وقت ایٹمی معاہدے کو بچانے اور اس معاہدے کے فوائد ایرانی عوام تک پہنچانے پر مرکوز ہے۔انہوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی خودسرانہ اور غیر قانونی علیحدگی کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر ایران سے اپیل کہ وہ ایٹمی معاہدے کی پابندی کا سلسلہ جاری رکھے۔دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا ہے کہ تمام فریقوں کو ایٹمی معاہدے کے مندرجات پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ اسی صورت میں اس معاہدے کو باقی رکھا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ادھر فرانس کے صدر عمانوئیل میکرون نے بھی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپ کی عہد شکنی کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر ایران سے اپیل کی وہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے صبر سے کام لے۔پیرس میں اپنے یوکرینی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ ایران کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر آمادہ کرنے کے لیے یورپ سے جو کچھ بن پڑے گا انجام دے گا۔فرانس کے صدر نے یہ بھی دعوی کیا کہ ایران کی جانب سے یورپ کو دی جانے والی ساٹھ روز کی مہلت کے خاتمے کے بعد بھی ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے مزید گفتگو کا امکان موجود ہے۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان نے ایٹمی معاہدے سے متعلق مغربی ملکوں کی جانب سے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ دس روز میں ایران میں یورینیم کی پیداوار تین سو کلو گرام سے تجاوز کر جائے گی۔انہوں نے کہا کہ یورینیم کی پیداوار تین سو کلو گرام تک پہنچ جانے کے بعد ایران یورینیم کی افزودگی کی مقدار میں بھی اضافہ کرے گا اور افزودگی کی شرح رفتہ رفتہ بیس فیصد تک پہنچائی جا سکتی ہے۔بہروز کمالوندی نے کہا کہ آئندہ ڈھائی مہینے میں ایران نے اگر بھاری پانی کو فروخت نہ کیا تو بھاری پانی کے ذخائر ایک سو تیس ٹن سے عبور کر جائیں گے۔بہروز کمالوندی نے کہا کہ ایران کی جانب سے یہ اقدامات ایٹمی معاہدے کی چھبیسویں اور چھتّیسویں شق کی بنیاد پر عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے یہ اعلان رواں سال آٹھ مئی کو ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کی جانب سے جاری کیے جانے والے اس بیان کے تحت کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایرانی عوام کی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کی خاطر جامع ایٹمی معاہدے کی شق چھبیس اور چھتیس کے حاصلہ حقوق پر عملدرآمد کرتے ہوئے، تہران ایٹمی معاہدے کے بعض حصوں پر عملدرآمد روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ایٹمی معاہدے کی شق چھبیس اور چھتیس کے تحت فریق مقابل کی جانب معاہدے کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں ایران کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اس معاہدے پر مکمل یا جزوی عملدرآمد روک سکتا ہے۔