کیا روس نے ایران پر اسرائیل و امریکا سے سودے بازی کر لی، کس بات کا ڈر ہے امریکا اور اسرائیل کو؟
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ورشنین یہ کہہ کر کے کہ روس اپنے اتحادیوں سے سودے بازی نہیں کرتا، تل ابیب میں روس، امریکا اور اسرائیل کے درمیان، شام اور ایران پر سودے بازی کی افواہوں پر فل اسٹاپ لگا دیا ہے ۔
در اصل تل ابیب میں ہونے والے اجلاس کے بارے میں خاص طور پر عرب دنیا میں کافی خوشی تھی اور انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ شام اور ایران پر روس، امریکا و اسرائیل کے زیر اثر آ جائے گا تاہم اب شام کے امور میں امریکا کے خصوصی سفیر جیمز جیفری نے بھی اس طرح کے اندازوں کی تردید کر دی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شام سے ایران کے انخلاء کے لئے روسی دباؤ کی بات، شام میں شکست کھانے والے فریق کی دلی تمنا ہے یعنی امریکا، اسرائیل اور ان کے عرب اتحادی ۔ خاص کر ایسے وقت میں جب ادلب میں روس اور شام کے فوجی مل کر دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کر رہے ہیں اور امریکا کے جنگی بیڑے، طیارہ بردار بیڑے اور بمبار طیارے، ایران کو جھکانے اور خوفزدہ کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔
روس، ایران اور شام پر، اسرائیل و امریکا کے ساتھ کسی بھی طرح کی سودے بازی نہیں کرے گا اس کے کئی اسباب ہیں :
پہلا سبب تو یہ ہے کہ شام میں اپنے اور اتحادیوں کے مفاد میں کامیابی حاصل کرنے والا روس، ایران کے شام سے نکالنے کے لئے امریکا و اسرائیل کے کسی بھی طرح کے جال میں پھنسنے والا نہیں ہے کیونکہ ایران کو روس تو شام نہیں لے کر گیا ہے بلکہ ایران اور حزب اللہ سمیت اس کے اتحادی، شام کی حکومت کی درخواست پر وہ بھی روس سے ایک سال پہلے شام گئے ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر امریکا، روس اور اسرائیل کے درمیان کسی طرح کی سودے بازی کی بات قبول بھی کر لی جائے تو یقینی طور پر یہ سودا ڈیل آف سینچری کی ہی طرح ناکام ہوگا اور ہمیں تو یہ نہیں لگتا کہ شام اور مشرق وسطی کے زیادہ تر علاقوں میں فاتح روس، اس ناکامی میں امریکا کے ساتھ شراکت کرے گا کیونکہ ان کے ساتھ کوئی مجبوری نہیں ہے اور اس لئے بھی کہ روس کے صدر، بہت ہی زرنگ ہیں، اس لئے وہ اس جال میں پھنسنے والے نہیں ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل اور اس کے ساتھ دنیا کی 65 حکومتوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ، 8 برسوں تک شام میں جنگ کی، 90 ارب ڈالرسے زائد خرچ کئے، لاکھوں جنگجوؤں کی ٹریننگ کی لیکن اس کے باوجود شامی حکومت کو بدلنے میں ناکام رہے، اس لئے یہ کہنا کہ امریکا کی جانب سے شامی حکومت کو باضابطہ قبول کرنے کے عوض میں یہ ڈیل ہو رہی ہے بالکل ہی غلط ہے کیونکہ امریکا، شامی حکومت کو قبول کرے یا نہ کرے، اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ امریکا و اسرائیل، علاقے میں ایران کے سیاسی اور فوجی کردار کے مضبوط ہونے سے خوفزدہ ہیں اس لئے تہران کو جنگ کی دھمکی دے کر پھنس گئے ہیں اس لئے اب اس دلدل سے نکلنے کے لئے روس سے مدد کی درخواست کر رہے ہیں تاہم ہمیں نہیں لگتا کہ روس سے انہیں کوئی مدد ملنے والی ہے ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ایران، روس کے لئے ایک مضبوط اتحادی ہے اور اب تو ایران کو علاقے کی ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے جو شام کے مستقبل کے لئے روس کے ساتھ مل کر موثر طریقے سے کام کر رہا ہے تو پھر وہ کیوں اس طرح اپنے ایک اتحادی کے خلاف امریکا و اسرائیل سے ڈیل کرے گا ؟
در حقیقت اس طرح کی باتیں صرف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں اور جہاں تک ایران کی شام میں موجودگی کی بات ہے تو ایران کے اتحادی اور فوجی مشیر اس وقت تو شام میں نہیں تھے جب اس ملک کو قوم اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے امریکا و اسرائیل نے، کچھ عرب ممالک کی مدد سے سازشیں شروع کی تھیں ۔
اس لئے جب یہ سازش پوری طرح سے ناکام ہو جائے گی تو یقینی طور پر ایران اور اس کے اتحادی فاتح کی حیثیت سے ملک سے نکل جائیں گے ۔ اب اگر ایران کے خلاف جنگ کے فتیلے میں آگ لگائی گئی تو یقین کریں کہ امریکا اور اسرائیل و کچھ عرب ممالک سمیت اس کے اتحادیوں کو ایک اور بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ اس جنگ میں جس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال کر لیں، کیونکہ سبق آخر میں سکھایا جاتا ہے آغاز میں نہیں ۔ غزہ و لبنان میں اسرائیل اور ویتنام، عراق اور افغانستان میں امریکا کی جنگیں اس کے نمونے ہیں ۔
تو جب ٹرمپ، تہران کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کرتے ہیں اور جاپان، عراق، عمان اور سویٹزرلینڈ کو واسطہ بناتے ہیں تاکہ ایرانی صدر روحانی کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملے اور جب امریکی وزیر خارجہ، ایران کے ساتھ مذاکرات کی پہلی کی سبھی بارہ شرطوں سے پسپائی اختیار کرتے ہیں تو اس سے صاف پتہ جاتا ہے کہ ایران کے مقابلے میں طبل جنگ پیٹنے والا فریق اصل میں سوچ کیا رہا ہے، کامیابی کا یقین رکھنے والے فریق کی یہ علامت تو نہیں ہوتی ۔
ایران ایک معمولی ملک ہے اور امریکا، غیر معمولی ملک ہے کیونکہ وہاں کی حکومت، غاصب اور نسل پرست ہے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک سے ٹکراتی رہی ہے ۔ اس لئے اگر ٹرمپ اور پومپئو، ایران کو معمولی ملک بنانے کے لئے یہ سوچتے ہیں کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں سے پسپائی اختیار کر لے کا، اپنا پر امن ایٹمی پروگرام چھوڑ دے گا، یمن، عراق، لبنان اور فلسطین میں اپنے اتحادیوں سے منہ پھیر لے گا تاکہ ایران، سونے کی طشت میں سر رکھ کر امریکی اور اسرائیلی جلادوں کے سامنے پیش کر دے تو ایرانی قاموس میں، معمولی ملک کی تعریف ہے ہی نہیں، ہمارا تو یہی خیال ہے، آپ لوگ بھی دیکھ لیں گے ۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان