خطے میں امن و سلامتی کا قیام ، بیرونی فوجیوں بالخصوص امریکی افواج کے انخلا سے ہی ممکن ہے : صدرمملکت
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ہرمز پیس فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے میں امن و سلامتی کا قیام، یہاں سے بیرونی افواج باالخصوص امریکی افواج کے نکلنے اور خطے کے ممالک کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے -
ایران کے خلاف امریکا کی اقتصادی دہشت گردی کے مقابلے میں ایرانی عوام کی استقامت کا ذکرکرتے ہوئے صدرروحانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی حکومت نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرکے دیگرملکوں کو بھی ڈرا دھمکا کراپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ آج امریکی حکومت ایران چین ونزوئیلا اور کیوبا جیسے ملکوں پر پابندیاں عائد کرنے کی عادی ہوچکی ہے اور اس کو پابندیاں لگانے کی لت لگ چکی ہے۔
صدرمملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ہم ایسے لوگوں کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کو ہر گز قبول نہیں کرسکتے جنھوں نے ایران کے عوام کے خلاف ظالمانہ ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی موجودہ حکومت نے ایٹمی معاہدے سے نکل کر سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی اور دیگر ملکوں کی بے حرمتی کی ہے -انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم نے اپنے بعض وعدوں پر عمل درآمد کو روک دیا ہے لیکن پھر بھی ہم ایٹمی معاہدے پر باقی ہیں لیکن ہمارے صبر کی بھی حد ہے، اگر یورپ نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا تو ہم اپنی عزت و وقار کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔انہوں نے امریکا سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم مذاکرات کے لئے تیار ہوجائیں تو جیسا کہ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ تم اگر مذاکرات کرنا چاہتے ہو تو ایٹمی معاہدے میں دوبارہ واپس لوٹ آؤ اور پابندیوں کو ختم کردو ۔
صدرایران نے امریکا کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر تم کم سے کم پر راضی ہو تو ہم بھی کم سے کم پر راضی ہیں لیکن اگر تم زیادہ چاہتے تو زیادہ دینا بھی ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اگر تم مطمئن ہونا چاہتے ہو کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا تو آئی اے ای اے کے معائنہ کارروں کی نگرانی کا عمل موجود ہے اور اس سے بھی بڑھ کر رہبرانقلاب اسلامی کا فتوی موجود ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور اسے رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی ڈکٹرائن خلیج فارس کی سیکورٹی اور اس سمندری گذرگاہ میں بحری جہازوں کی آزادانہ آمد و رفت کو یقینی بنانا ہے -انہوں نے کہا کہ خلیج فارس بحیرہ عمان اور آبنائے ہرمز میں سیکورٹی علاقے کے ملکوں کے ذریعے یقینی بنائی جاسکتی ہے اغیار کی موجودگی سے ممکن نہیں ہوسکتی ۔انہوں نے ہرمز پیس فارمولے کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس فارمولے کا مقصد علاقے کے ملکوں کے درمیان دوستی اور تعاون کا قیام ہے جس میں انرجی کی سیکورٹی بحری جہازوں کی آزادانہ رفت و آمد وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس فارمولے کے تحت امید الائنس کا اعلان کرتے ہیں جس میں سبھی اختلافات کو حل کرنے کے لئے باہمی افہام و تفہیم شامل ہے اوراس میں اقوام متحدہ کو بھی دعوت دیتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ علاقے میں کسی بھی عنوان سے اغیار کی فوجوں کی سرپرستی میں کسی بھی طرح کے اتحاد کا قیام صورتحال کو مزیدہ پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا - انہوں نے کہا کہ امریکا نے اٹھارہ برس میں علاقے میں اپنی فوجی موجودگی سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا بلکہ صرف بدامنی پیدا کی ہے جبکہ ایران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کرکے اس کو شکست دی ہے - انہوں نے علاقے کے ملکوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا تمہارا پڑوسی نہیں ہے ایران تمہارا پڑوسی ہے۔ اور ہمیں سکھایا گیا ہے کہ پہلے پڑوسیوں کی فکر کرو اس کے بعد اپنے گھر کی فکر کرو۔انہوں نے کہا اگر آج یمن کی جنگ کے شعلے حجاز تک پہنچ رہے ہیں تو اس کی اصل جڑ کا پتہ لگانا چاہئے نہ کہ بے گناہوں پر الزام لگایا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ امریکا نے انتہا پسندی، اور طالبانی و داعشی افکار کو پروان چڑھایا ہے ۔ صدرمملکت نے کہا کہ ایرانی عوام کا پیغام یہ ہے کہ جنگ و تشدد پر سرمایہ کاری کرنےکے بجائے امید و امن اور عدالت پر سرمایہ کاری کریں۔