امریکہ کے بے بنیاد دعوے پر ایران کا رد عمل
ایٹمی معاہدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کا ضمیمہ ہے
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے ایٹمی معاہدے کو اقوام متحدہ سے غیر مربوط قرار دینے کے امریکی دعوے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کا ضمیمہ ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے سہارے اس بات کا دعوی کر رہا ہے کہ اقوام متحدہ میں ایٹمی معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جبکہ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کا ضمیمہ ہے اور امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے مطابق وہ ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس پر عمل کرے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی دوسری شق میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ملکوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی حمایت کریں جبکہ امریکہ نے اس شق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنا فرض نبھانے سے گریز کیا۔
دریں اثنا ایران کے ایوان صدر کے چیف آف اسٹاف محمود واعظی نے ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کے خاتمے کو ایٹمی معاہدے کی اہم شقوں شمار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی جاری رکھوانے سے متعلق امریکی کوششیں اور سلامتی کونسل کے دیگر رکن ملکوں پر اس تعلق سے دباؤ اور اپنے عزائم مسلط کرنے کی واشنگٹن جدوجہد صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ ان ممالک کی رائے اور سیاسی ارادوں کی آزادی کے بھی منافی ہے۔
محمود واعظی نے ایٹمی معاہدے کے تحفظ کو چار جمع ایک ممالک کی ذمہ داری قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف اسلحے کی پابندی کا خاتمہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کا حصہ ہے جس کے بغیر یہ بین الاقوامی معاہدہ باقی نہیں رہ سکتا۔
واضح رہے کہ ایران اور گروپ 5+1 یعنی فرانس، برطانیہ، امریکہ، چین، روس اور جرمنی کے درمیان 14 جولائی 2015 کو ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کی تصدیق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 2231 کے ذریعے کی تھی، لیکن امریکہ اس معاہدے سے نکل گیا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو خودسرانہ اور غیر قانونی طریقے سے قدم اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔
امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے اس اقدام پر اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
روس اور چین کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل ہے اور ان دونوں ہی ملکوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندیاں جاری رکھے جانے کے خلاف ہیں۔ اقوام متحدہ میں چین کے نمائندہ دفتر نے واضح اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر کے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کو پیروں تلے روند ڈالا ہے۔ چین نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو ایران کے خلاف اسلحہ جاتی پابندی کی مدت بڑھوانے کا ہرگز کوئی حق حاصل نہیں ہے چہ جائیکہ وہ پابندی کی دوبارہ بحالی کی کسی شق کو استعمال کر سکے۔
روس کی وزارت خارجہ کا بھی کہنا ہے کہ امریکہ کو ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کی مدت میں توسیع کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کو استعمال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
دنیا بالخصوص عالم اسلام اور علاقے کی اہم خبروں کے لیے ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن کیجئے!
Whatsapp invitation link
9: https://chat.whatsapp.com/FI0EhwfdLa0KpUhbFMXnfM