ایران سے ایٹمی معاہدے کی یک طرفہ پابندی کا مطالبہ
ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ نے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے امریکی اور یورپی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ یورینیم کی افزودگی میں اضافہ اور معائنہ کاروں کا اخراج، ایٹمی معاہدے سے ایران کی مزید روگردانی تصور کی جائے گی۔
اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی نے ایسے کسی بھی اقدام کی بابت تشویش ظاہر کی جو ایران کے ایٹمی اور دفاعی سائنسداں محسن فخری زادے کے قتل کے بعد کی صورتحال کو مزید کشیدہ بنانے پر متنج ہو۔
انہوں نے امریکہ کی جانب سے ایٹمی معاہدہ کو سبوتاژ کرنے اور یورپ کی وعدہ خلافیوں کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر ایران سے کہا کہ وہ ایٹمی معاہدے کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو نکالنے کے اعلان پر عمل نہ کرے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ نے کہا کہ عالمی معائنہ کاروں کی تعداد کو محدود کیا گیا تو ان کے کام میں خلل پیدا ہوگا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئی اے ای اے اور ایران کے درمیان تعاون بہر حال جاری رہے گا۔
ایرانی پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایک بل کے مطابق، بل کی منظوری کے ایک ماہ بعد پابندیاں ختم نہ ہونے کی صورت میں، نطنز کی ایٹمی تنصیبات میں آئی آر۔ایم ٹو قسم کی کم سے کم ایک ہزار سینٹری فیوج مشینوں کے ذریعے ملککو درکار ایٹمی ایندھن تیار کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔
برطانیہ، فرانس، اور جرمنی نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی کے بعد ایران کے اقتصادی مفادات کی تکمیل کا وعدہ کیا تھا۔ مذکورہ ملکوں نے امریکہ کے اس اقدام کے خلاف زبانی دعوے تو خوب کیے لیکن ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
ان حالات میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل نے آٹھ مئی دوہزار انیس کو امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے پورے ایک سال بعد، ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں مرحلہ وار کمی کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد اس معاہدے کے تحت ایران کے حقوق اور ذمہ داریوں کے درمیان توازن پیدا کرنا تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کئی بار واضح کر چکا ہے کہ پابندیوں کے خاتمے اور اقتصادی مفادات کی تکمیل کی صورت میں تہران، ایٹمی معاہدے کی معطل شدہ شقوں پر دوبارہ عملدرآمد شروع کر دے گا۔