امریکی اقدامات کی صداقت چانچنے کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ امریکہ ، دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایٹمی معاہدے میں واپس آجائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی اور پابندیوں کے خاتمے کی صداقت چانچے بغیر ایران کوئی بھی قدم نہیں اٹھائے گا۔
بغداد میں اپنے عراقی ہم منصب فواد حسین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ، ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کی صورت میں تہران ، واشنگٹن کے اقدامات کی صداقت کو جانچنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھائے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ تہران، خطے میں عراق کے طاقتور اور کلیدی کردار کا خیر مقدم کرتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ بغداد کے علاقائی کردار میں روز بروز اضافہ ہوگا جوعلاقائی استحکام اور امن کا سبب بنے گا۔
وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے مزید کہا کہ ایران اور عراق اس علاقے میں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ باہرسے آنے والے چلے جائیں گے اور ہم یہاں باقی رہیں گے لہذا ہمیں باہمی روابط کو اچھی ہمسائیگی کے اصولوں، اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کے احترام ، عدم مداخلت، دوستی ، بھائی چارے اور اخوت کی بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے۔ اور یہ اس خطے کے لیے ایران کی اصولی پالیسی ہے۔
عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے اس موقع پر کہا کہ ان کا ملک علاقائی مسائل کے حل میں بنیادی کردار کا حامل ہے اور ہم خطے میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطے کے تمام ملکوں کے ساتھ متوازن تعلقات کے خواہاں ہیں۔
عراق کے وزیر خارجہ نے کہا علاقائی امن اور استحکام ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔
واضح رہے کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف پیر کے روز قطر کا دورہ مکمل کرکے ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ عراق پہنچے ہیں۔
وہ بغداد میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران ، دیگر اعلی عراقی حکام سے بھی ملاقات اور گفتگو کریں گے۔
عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصاف نے گزشتہ روز کہا تھا کہ عراقی حکام اور ایرانی وزیر خارجہ کے درمیان ملاقاتوں میں، باہمی دلچسپی کے سب ہی معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ بغداد کے بعد عراقی کردستان ریجن کا بھی دورہ کریں گے۔
قبل ازیں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے قطر میں اپنے قیام کے دوران اس ملک کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں، باہمی تعلقات کے فروغ، علاقائی مسائل نیز ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا۔