Aug ۱۸, ۲۰۲۱ ۱۱:۲۷ Asia/Tehran
  •  ایران کی ایٹمی سرگرمیاں این پی ٹی اور سیف گارڈ معاہدے کے مطابق ہیں، خطیب زادے

ایران نے ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی تازہ رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ اور دیگر فریق ایٹمی معاہدے کی پابندی کریں تو ایران بھی معاہدے میں واپسی کا عمل شروع کردے گا۔

آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایران کی تمام تر ایٹمی سرگرمیاں این پی ٹی اور سیف گارڈ معاہدے کے عین مطابق ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی اے ای اے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی بدستور نگرانی کر رہا ہے اور کوئی بھی تبدیلی اس کے علم میں لاکر انجام دی جارہی ہے۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی خود اس معاہدے میں تسلیم شدہ امر ہے اور یہ کام امریکہ اور تین یورپی ملکوں کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس کی پابندی نہ کرنے کے جواب میں کیا گیا ہے۔

خطیب زادے نے کہا کہ جب تک امریکہ اور دیگر فریق ایٹمی معاہدے پر غیر مشروط اور مکمل عملدرآمد شروع نہیں کریں گے اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو ملکی ضروریات، حکومتی احکامات اور سیف گارڈ معاہدے کے مطابق آگے بڑھاتا رہے گا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران کی تمام ایٹمی سرگرمیاں پرامن مقاصدکے لئے اور غیر عسکری ہیں۔انہوں نے ایک بار پھر ایران کے اس دیرینہ اور اصولی موقف کا اعادہ کیا کہ اگر ایٹمی معاہدے کے دیگر فریق اس پر عملدرآمد کریں اور واشنگٹن ایرانی عوام کے خلاف عائد کی جانے والی تمام یک طرفہ اور غیر قانونی پابندیاں موثر اور عملی طور پر ہٹالے تو تہران بھی ایٹمی معاہدے میں واپسی کا عمل شروع کردے گا۔

قابل ذکر ہے کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے منگل کے روز جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ ایران نے یورینیم کی افزودگی کا عمل تیز کردیا ہے۔ یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی کے بعد ایران کے اقتصادی مفادات پورے کرنے کی ضمانت اور ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کا وعدہ کیا تھا لیکن عملی طور پر کوئی بھی قابل قبول قدم نہیں اٹھایا۔اندریں حالات ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کو ایک سال پورا ہونے کے بعد آٹھ مئی دوہزار انیس کو ایٹمی معاہدے سے مرحلہ وار پیچھے ہٹنے کا عمل شروع کیا جس کا مقصد ایران کی ذمہ داریوں اور حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا تھا۔ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس میں ایران کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ معاہدے کے رکن کسی ملک یا ملکوں کی جانب سے وعدہ خلافی کی صورت میں تہران بھی اس معاہدے پر جزوی یا مکمل عملدرآمد روک سکتا ہے۔ایران متعدد بار اپنے اس موقف کا اعلان کرچکا ہے کہ پابندیوں کے عملی طور پر خاتمے اور ایٹمی معاہدے میں درج مفادات کی تکمیل کی صورت میں تہران بھی ایٹمی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لئے تیار ہے۔

ٹیگس