حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری
افغانستان کے صوبہ تخاڑ سے ملنے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مقامی حکام کے مطابق گلبدین حکمتیار کی زیرقیادت جماعت، حزب اسلامی کے ایک کمانڈر نے صلاح الدین ربانی کی زیر قیادت جماعت جمعیت اسلامی کے بائیس افراد پر نماز پڑھتے وقت فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
افغان سینیٹ کے رکن افضل شامل نے دعوی کیا ہے کہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب حزب اسلامی کے افراد منشیات اسمگل کرنے کی کوشش کر رہےتھے کہ ان کا مقابلہ حزب جمعیت اسلامی کے افراد سے ہوا۔
تخار کے پولیس سربراہ فقیر محمد جوزجانی نے کہا ہے کہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک وفد کو علاقے میں روانہ کیا گیا ہے۔
حزب اسلامی اور حزب جمعیت اسلامی کے درمیان ایک عرصے سے اختلاف پایا جاتا ہے-۔
صلاح الدین ربانی کی زیر قیادت حزب جمعیت اسلامی حکومت میں شامل ہے اور صلاح الدین ربانی افغانستان کے وزیر خارجہ ہیں۔
حزب جمعیت اسلامی خود کو افغانستان کی نہایت اہم، موثر اور منظم غیر پختون سیاسی پارٹی سمجھتی ہے جبکہ حکمتیار کے زیر قیادت حزب اسلامی ایک پختون اور منظم جماعت ہے کہ جس نے حالیہ مہینوں میں افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر کے اس ملک میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
ان حالات میں افغانستان کے بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ حکمتیار کی حزب اسلامی کہ جو اب تک افغانستان کے سیاسی میدان میں سرگرم نہیں تھی اب بحران پیدا کرکے ناامنی اور تشدد کا ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ حالات کو اپنی خواہشات کے مطابق اپنے حق میں موڑ سکے۔
اس صورت حال میں افغانستان تیس سال پہلے والے حالات میں پہنچ جائے گا کہ جب افغانستان میں خانہ جنگی کا دور دورہ تھا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ افغانستان کو طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے حملوں کا بھی سامنا ہے کہ جس نے اس ملک کے حالات کو پہلے سے زیادہ بحران کا شکار بنا دیا ہے۔