صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی برقراری پر انتباہ
غزہ میں علمائے دین کی انجمن نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات برقرار کرنے کے لئے عرب ملکوں کے ہرطرح کے اقدام کو بیت المقدس کی امنگوں اور فلسطینی عوام کے ساتھ خیانت سے تعبیر کیا ہے۔
بیت المقدس کی حمایت میں غزہ میں ہونے والے اجتماع میں شریک علمائے کرام نے تمام عرب اور اسلامی ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس اور صیہونی غاصبوں کے مقابلے میں اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے اختلاف و تفرقے سے گریز کریں اور متحد ہو جائیں۔انھوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے مفادات کے دائرے میں بعض عرب ملکوں کی جانب سے امریکی منصوبوں پر عمل، بیت المقدس اور فلسطینی امنگوں سے خیانت و غداری ہے۔غزہ کے مسلمان علما کی انجمن کے سربراہ مروان ابو الروس نے فلسطینیوں کے اجتماع سے اپنے خطاب میں کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں بیت المقدس کی حمایت ایک واجب فریضہ ہے اور سب کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے پر مبنی امریکی صدر ٹرمپ کا فیصلہ تبدیل کرانے کی کوشش کریں۔انھوں نے کہا کہ تمام عرب و اسلامی افواج کو چاہئے کہ اپنے ہتھیاروں کا رخ صیہونی حکومت کی طرف کر دیں اور ان ہتھیاروں سے مسلمانوں کو نشانہ بنانا کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے۔غزہ کی شرعی عدالت کی اعلی کونسل کے چیئرمین حسن الجوجو نے بھی بیت المقدس کی آزادی اور قدس فوج کی تشکیل کے لئے تمام مسلمانوں کے متحد ہو جانے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے تمام عرب اور دنیائے اسلام کے علمائے کرام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں آگے بڑھیں اور پیش پیش رہیں۔دوسری جانب بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف غزہ اور غرب اردن میں فلسطینیوں کے احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے جہاں مختلف علاقوں میں فلسطینیوں اور صیہونی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔بیت لحم، الخلیل اور نابلس سمیت مختلف علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں نے فلسطینیوں کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا اور احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کی شدید سرکوبی کی۔صیہونی فوجیوں نے بیت المقدس کی حمایت میں مظاہرے کرنے والے فلسطینیوں کے خلاف ربڑ کی گولیاں بھی استعمال کیں اور کئی فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔فلسطینیوں اور صیہونی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں غزہ کے مشرقی علاقے اور نابلس میں کئی فلسطینی زخمی بھی ہو گئے۔واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے چھے دسمبر کو بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا جائے گا جس پر علاقائی و عالمی سطح پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور مختلف عالمی اداروں اور تنظیموں نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کے اعلان کے بعد سے شروع ہونے والی تیسری انتفاضہ اور فلسطینیوں اور غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں اب تک پندرہ فلسطینی شہید اور تین ہزار سے زائد دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔