سعودی شہزادوں کی گرفتاری سے حکومت کو107 ارب ڈالر کا فائدہ
سعودی عرب میں جاری وسیع تر اینٹی کرپشن مہم سے حکومت کو اب تک چار سو ارب ریال یا ایک سو سات ارب امریکی ڈالر کے برابر فائدہ ہوا ہے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق گرفتار کیے گئے چار سو کے قریب شہزادوں،امراء اور دیگر سعودی شہریوں میں سے 65 ابھی بھی زیر حراست ہیں۔
سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب نے آج بتایا کہ حکومت نے ملک بھر میں بدعنوانی کے خلاف گزشتہ برس کے اواخر میں جو وسیع تر مہم شروع کی تھی، اس دوران کل 381 انتہائی امیر اور بہت با اثر سعودی شخصیات کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں بہت بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور موجودہ اور سابقہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی شامل تھے۔
شیخ سعود المجیب کے مطابق اب تک ان میں سے 316 ارب پتی اور کھرب پتی سعودی باشندوں کو رہا کیا جا چکا ہے جبکہ 65 تاحال حکام کی حراست میں ہیں۔
سعودی اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سینکڑوں زیر حراست سعودی شہریوں میں سے جن کو ادائیگیوں اور ڈیل کے بعد رہا کیا گیا، ان سے ریاض حکومت کو 107 ارب امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہوئی۔ ان اثاثوں میں غیر منقولہ املاک، تجارتی نوعیت کی جائیدادیں اور حصص یا مالیاتی بانڈز بھی شامل ہیں۔ سعودی شہریوں میں سے جن کو گزشتہ ویک اینڈ پر رہا کیا گیا، ان میں شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں، جو دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے شہزادوں کی اندرونی جنگ میں سعودی بادشاہ کے بیٹے اور ولیعہد محمد بن سلمان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھر پور حمایت کی بنا پر عارضی طور پرکامیاب ہوگئے ہیں۔ اور انھوں نے اپنے حریف شہزادوں کو ریاض کے فائیو اسٹار ہوٹل میں بند کرکے ثابت کردیا کہ ان کے سر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہاتھ ہے۔
رہائی سے چند گھنٹے قبل روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں شہزادہ طلال بن ولید نے کہا تھا کہ ان پر کرپشن کے کوئی چارجز عائد نہیں کیے گئے بلکہ حکومت اور ان کے درمیان کچھ مالی معاملات پر اہم بات چیت ہوئی ہے۔