مشرقی غوطہ کی فیصلہ کن جنگ، فوج نے اچانک آپریشن کا فیصلہ کیوں کیا؟ - مقالہ
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب اسٹیفن دی میستورا نے جب یہ بیان دیا کہ مشرقی غوطہ کا علاقہ دوسرا حلب بننے جا رہا تو انہوں نے کوئی مبالغہ نہیں کیا۔ حلب میں شامی فوج نے 2016 میں آپریشن کیا تھا اور شہر کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا تھا البتہ اس آپریشن میں شہر کو شدید نقصان بھی پہنچا تھا۔
مشرقی غوطہ کا علاقہ جو دارالحکومت دمشق کے نزدیک واقع ہے ان چار علاقوں میں تھا جسے کم کشیدگی والے علاقوں میں شامل ہونا تھا تاہم اس علاقے میں جنگ بندی کا جو معاہدہ نافذ ہوا اسے باغیوں نے بارہا پامال کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شامی فوج نے روس کی مدد سے اس علاقے پر شدید حملہ شروع کیا ہے کیونکہ اس علاقے سے دارالحکومت دمشق کے محلوں پر مارٹر فائر کئے جاتے تھے۔ ان حملوں میں متعدد عام شہری نشانہ بنے ہیں۔
شامی حکومت دار الحکومت دمشق پر حملے کو ریڈ لائن تصور کرتی ہے کیونکہ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ جنگ ملک کے اساسی اداروں کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شامی حکومت نے اس پر سخت جوابی کاروائی کی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ شامی حکومت نے اس مسئلے کی بیخ کنی کا فیصلہ کر لیا ہے۔
مشرقی غوطہ علاقے میں جاری جنگ سے جو نقصان ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر اس موضوع پر بحث ہونے لگی ہے۔ کچھ رپورٹوں میں تین سو افراد کی ہلاکت کی بات کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بندی ہوجانی چاہئے۔ روس نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ بحرانی حالت کا جائزہ لینے کے لئے سیکورٹی کونسل کا ایمرجنسی اجلاس منعقد ہونا چاہئے جس میں جنگ بندی کا راستہ فراہم کیا جائے اور اس علاقے میں محاصرے کا شکار تقریبا 4 لاکھ لوگوں کی زندگی بچائی جائے۔
دی مستورا جب یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ مشرقی غوطہ کا علاقہ دوسرا حلب بننے جا رہا تو اس صاف مطلب یہ ہے کہ گزشتہ واقعات سے سبق لیتے ہوئے موجودہ بحران کا پرامن حل نکالا جائے اور باغیوں اور حکومت کے درمیان براہ راست یا بالواسطہ مذاکرات شروع ہوں اور اس علاقے سے باغیوں کو نکال کر کہیں دوسرے مقام پر منتقل کیا جائے۔ واضح رہے کہ آستانہ میں مذاکرات سے آٹھ مرحلے ہوئے تھے اور ان میں کامیابی بھی میسر ہوئے اور جنگ بندی کا راستہ فراہم ہوا تھا۔
جیش الاسلام نامی گروہ کے سرغنہ محمد علوش نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ عالمی اور مقامی سطح پر جنگ کا معاہدہ ہونے کی کوشش ہو رہی ہے تاہم دونوں فریق کی سخت شرطوں کی وجہ سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پا رہا ہے لیکن جب بھی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو پہلے دونوں فریق کے مواقف میں کافی فاصلہ ہوتا ہے تاہم آہستہ آہستہ کچھ نرمی آتی ہے اور کسی نکتہ پر دونوں فریق میں مفاہمت ہو جاتی ہے۔ آج حلب کو دیکھیں تو وہا امن ہے اور لوگ پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح کم کشیدگی والے دوسرے علاقوں میں بھی حالات میں بہتری ہے اور یہ اطلاعات موصول ہونے لگي ہیں ہیں ہزاروں افراد واپش اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں جو جنگ کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
مشرقی غوطہ کے علاقے میں واقعی حالات بحرانی ہیں جن عرب حکومتوں نے اربوں ڈالر خرچ کرکے شامی حکومت کے خلاف باغی گروہوں کو کھڑا کیا تھا اور انہیں مسلح کیا تھا اب وہ پوری طرح سے غائب ہوگئی ہیں جیسے حلب کی جنگ کے وقت غائب ہوگئی تھیں۔ بس صرف ان کے میڈیا پر ہی اس واقعے پر بحث ہو رہی ہے اور جنگ سے لئے ورغلایا جا رہا ہے۔
فوجی کاروائیاں جو سات برسوں تک چلتی رہیں، شام میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں اور یہ حقیقت حکومت اور باغیوں دونوں کو معلوم ہے کہ مذاکرات پر مبنی سیاسی حل ہی سب سے کوتاہ اور تیز راستہ ہے ملک میں امن و سیکورٹی بحال کرنے کا۔
بشکریہ
عبد الباری عطوان
مشہور عرب تجزیہ نگار