شام کے بارے میں منہ کی کھانے والوں کی بے چینی!!!
عرب پارلیمنٹ کا نام ہی بہت کم افراد نے سنا ہوگا اور اس کے کردار اور اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی شاید کم ہی افراد جانتے ہوں گے ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ پارلیمنٹ ان ممالک کے پارلیمنٹز کا ایوان ہے جن میں زیادہ تر کے یہاں انتخابات ہی نہیں ہوتے بلکہ وہاں کے نمائندے ڈکٹیٹرشپ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
اس طرح دیکھا جائے تو یہ ادارہ آرام سے بیٹھ کر گفتکو کرنے کا ایک مقام ہے اور اراکین کو اچھی خاصی تنخواہیں بھی ملتی ہیں اور رکن وہی افراد بنتے ہیں جو اپنی حکومتوں کے قریبی ہوتے ہیں ۔ اس کی حالت بھی عرب لیگ والی حالت ہے ۔
عرب پارلیمنٹ کے بارے میں لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ اس ادارے نے جمعے کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں عرب لیگ اور اس کے سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ شام کی رکنیت فوری بحال کی جائے اور عرب دنیا، مشترکہ ایجنڈے کا کام شروع کرے ۔
شام کی رکنیت چند سال پہلے معطل کر دی گئی تھی اور اس طرح عرب لیگ اپنے اس معمول کی ذمہ داریوں سے بھی دور ہو گیا تھا جو وہ کبھی کبھی ادا کر دیا کر دیتا تھا اس چنندہ ملکوں کے ہاتھوں کی کٹھپتلی بن گیا تھا جو شام کے خلاف مغربی ممالک کی سازشوں کا حصہ تھے ۔
سات سال کی نیند کے بعد اچانک اس ادارے کو جو ہوش آیا ہے تو یہ کوئی اتفاق نہیں ہے نہ ہی اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب پارلیمنٹ اور اس کے اسپیکر کے ضمیر بیدار ہو گئے ہیں ۔ اس ادارے کو پتا چل چکا ہے کہ حکومت دمشق کو سرنگوں کرنے اور شام کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی اس کی سازش ناکام ہو چکی ہے اور اب جو نیا شام سامنے ہے وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکا ہے اور پورے فخر کے ساتھ سینہ تانے ہوئے ہے جبکہ عرب پارلیمنٹ کی شبیہ عرب دنیا میں پوری طرح تباہ ہو چکی ہے ۔
یہاں پر متعدد سوال پیدا ہوتے ہیں :
ایک سوال تو یہ ہے کہ یہ واپسی کس طرح ہوگی؟ کیا دو میٹھی باتیں کرکے اور ایک قلم ہلا کر شام کو واپس بلا لیا جائے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا شام کے عوام اور حکومت اس عرب لیگ اور عرب پارلیمنٹ میں واپس جانا پسند کرے گی جس نے شام کے خلاف خطرناک جرائم کا ارتکاب کیا اور یہ سارا ڈرامہ امریکا کی نگرانی میں ہوا؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ سازش میں شامل ممالک کیا اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگیں گے اور کیا شام کو ہوئے نقصان کی تلافی کریں گے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ عرب ليگ جو پوری طرح سے حاشیے پر چلا گیا ہے، کیا اس لائق ہے کہ شام اس میں واپس آئے اور اگر آئے گا تو اس سے اسے کیا فائدہ ہوگا؟
ان سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوالوں کے جواب عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط کے پاس بھی نہیں ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسا نہیں لگتا کہ عرب لیگ میں رکنیت معطل ہونے پر شام کے عوام اور حکومت کو کسی بات کی کوئی تشویش ہوگی ۔
عرب لیگ اور عرب پارلیمنٹ میں شام کی رکنیت بحال کرنے کا مطالبہ شام کی محبت میں نہیں سامنے آیا ہے بلکہ دنیائے عرب کا کردار مضبوط کرنے کی خواہش کے تحت ہے جو پوری طرح تباہ ہو چکا ہے ۔ یہی نہیں امریکا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ سارے منصوبے بھی ناکام ہو چکے ہیں ۔
یہ دعوت ایسے وقت میں دی گئی ہے کہ جب مغربی ممالک دمشق میں اپنے سفارتخانے پھر سے کھولنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ انہیں بھی یقین ہو چکا ہے کہ شام، بحران سے پوری کامیابی کے ساتھ باہر نکل چکا ہے ۔ اب اگر شام، عرب لیگ میں واپس آتا ہے تو ضروری ہے کہ پہلے یہ ادارہ شام سے معافی مانگے اور اس کے نقصان کی تلافی کرے ۔
رای الیوم
عبد الباری عطوان، مشہور عرب تجزیہ نگار