Dec ۱۴, ۲۰۱۹ ۰۵:۰۰ Asia/Tehran
  • کیا امریکا کے خلاف علاقے میں شروع ہونے والی ہے نئی جنگ؟

تقریبا ایک مہینہ پہلے شام کے صدر بشار اسد نے رشا ٹو ڈے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتے جو شام کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کئے ہوئے لیکن وہ عراق کی طرح شام سے امریکا کو نکالنے کے لئے مزاحمت کے محاذ کا سہارا ضرور لے سکتے ہیں۔

مقالہ : رای الیوم

تحریر : عبد الباری عطوان

اس بیان کے ایک مہینے بعد خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ دریائے فرات کے مشرقی ساحل پر شامی تیل کے کنوؤں کے پاس امریکی چھاونیوں پر "نامعلوم" افراد نے راکٹوں سے حملہ کیا اس کے کچھ دنوں بعد خبر ملی کہ شامی فضائیہ کے طیاروں نے امریکی حمایت یافتہ گروہوں پر بمباری کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب شامی تیل پر امریکا کے قبضے کو ختم کرنے اور شام سے امریکا کو نکال باہر کرنے کے لئے کسی جنگ کا آغاز تو نہيں؟

اس سوال کا جواب "ہاں" میں اس لئے بھی زیادہ صحیح ہے کیونکہ شام میں ان واقعات کے ساتھ ہی عراق میں امریکی چھاونی عین الاسد پر بھی چار راکٹ فائر کئے گئے وہ بھی جب امریکی نائب صدر نے صرف چار دن پہلے ہی اس چھاونی میں جاکر امریکی فوجیوں سے ملاقات کی تھی۔

صدر ٹرمپ، شام کے تیل کے کنوؤں پر قبضے پر فخر کرتے ہیں اور واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ اس سے ہونے والی آمدنی کا وہ استعمال کریں گے اور اس کا ایک حصہ، امریکی حمایت یافتہ کرد فورس کو بھی دیا جائے گا لیکن سب سے زیادہ خطرناک بیان اسرائیلی تاجر "موردخائی کھانا" کا ہے جو انہوں نے "اسرائیل ہیوم' کے ساتھ ایک انٹرویو میں دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی "گلوبل ڈولپمنٹ کارپوریشن" کمپنی نے شمال مشرقی شام میں اسی کرد فورس کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جن کی بنیاد پر اس علاقے کے سبھی تیل کے کنوؤں کے سارے امور اس اسرائیلی کمپنی کو مل جائے گا اور یہ سب کچھ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گرین سگنل کے ساتھ ہوا ہے۔

شام کے اس کنویں سے چوری کئے جانے والے تیل کی مقدار 125 بیرل روزانہ ہے جو 4 لاکھ بیرل روزانہ ہو سکتی ہے۔ فی الحال شام سے امریکا کی جانب سے چوری کئے جانے والے اس تیل کی آمدنی 36 ملین ڈالر ماہانہ ہے۔ اس آئل فیلڈ پر اس سے پہلے دہشت گرد گروہ داعش کا تین سال تک قبضہ رہا۔

ہمارا یہ کہنا غلط نہيں ہوگا کہ جنگ کا دوسرا مرحلہ، شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں شروع ہو چکا ہے جہاں گیس اور تیل کے ذخائر ہیں اور وہاں امریکی چھاونیاں ہیں اور امریکی فوجی ان ذخائر کی حفاظت کر رہے ہيں۔ لگتا ہے گوریلا جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس کی مدد سے عراقیوں نے امریکا کو اپنے ملک سے عقب نشینی پر مجبور کر دیا اور جس میں کم از کم 500 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

موجودہ مزاحمتی محاذ کو مضبوط بنانے اور ہتھیار دینے میں شام کا اہم کردار رہا ہے اور شامی خفیہ ایجنسی کے پاس گوریلا جنگ کے بارے میں کافی اہم معلوماتیں۔ شام کی قومی سیکورٹی کے ادارے کے سربراہ علی المملوک کا مشرقی شام کا دورہ اور قبائلی سرداروں سے ملاقات کو الگ طرح کی جنگ کا مقدمہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

شام کا تیل اور گیس، شام کا قومی اثاثہ ہے اور ہر شامی شہری کا اس پر حق ہے اور اس کی آمدنی، شام کے قومی خزانے میں جانی چاہئے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ شامی فوج، شامی مزاحمتی گروہ، عراقی رضاکار فورس کی مدد سے دریائے فرات کے مشرقی ساحل پر قبضہ پھر سے قائم کر لیں گے اور یہ طاقتیں مل کر امریکی فوجیوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گی۔

بشکریہ

رای الیوم - عبد الباری عطوان

* مقالہ نگار کے موقف سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے*

ٹیگس