دوحہ ڈائیلاگ فورم کے اجلاس میں وزیرخارجہ ڈاکٹر جواد ظریف کا خطاب
مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کی بعض حکومتوں کی غیر دانشمندی کے نتیجے میں پائی جانے والی جنگ اور ظلم و جارحیت سے فائدہ اٹھا کر سامراجی طاقتوں نے اس خطے میں اپنا تسلط جمانے کے پروگرام پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔
قطر کے محاصرے اور یمن پر جنگ مسلط کرنے کے سعودی حکومت کے اقدام کو ان غیر دانشمندانہ اقدامات میں شمار کیا جاسکتا ہے جنہوں نے خلیج فارس اور مغربی ایشیا کو بدامنی کے حوالے کرنے کے ساتھ ہی امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کو اس خطے میں مداخلت اور اپنا سامراجی تسلط قائم کرنے کی کوششیں شروع کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اس درمیان اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں قیام امن کا ایسا فارمولا پیش کیا ہے جس میں بیرونی طاقتوں کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اس خطے کے ملکوں کے ذریعے علاقے میں امن و استحکام قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے دوحہ ڈائیلاگ فورم کے اجلاس سے خطاب میں خلیج فارس میں قیام امن کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظریئے کی تشریح کی ۔انھوں نے اس سلسلے میں اہم نکات بیان کئے ۔وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس خطے کے ملکوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن، بحران پر منتج ہوا ہے ۔
وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے خطے میں قیام امن کے لئے صدر ایران کے ہرمز پیس پلان کا بھی ذکر کیا ۔ایران کے وزیر خارجہ نے اسی کے ساتھ دوحہ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترش اور سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون سمیت مختلف عالمی رہنماؤں سے ملاقات میں بھی ایران کے ہرمز پیس پلان کی وضاحت کی۔
ایران کے وزیرخارجہ عمان اور کویت سمیت خطے کے مختلف ملکوں کے رہنماؤں کے ساتھ بھی اس پیس پلان پر تبادلہ خیال کرچکے ہیں ۔
خلیج فارس اور مغربی ایشیا میں قیام امن کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کی مشاورت اور کاوشیں دو لحاظ سے اہمیت رکھتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہرمزپیس پلان میں اس خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا نظریہ پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس اہمیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے خطے کے بارے میں ایران کی خارجہ پالیسی کی جہت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی باہمی اعتماد کے اصول پر استوار ہے ۔اسی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے عدم جارحیت کے معاہدے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس ہرمز پیس پلان پیش کیا۔
قیام امن کا یہ منصوبہ ، خطے کے سبھی ملکوں کے فائدے میں ہے اس لئے کہ اس میں خطے کے امن و استحکام کے قیام میں سبھی علاقائی ملکوں کی مشارکت اور مشترکہ مساعی پر زور دیا گیا ہے۔
ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اسی لئے دوحہ اجلاس میں اپنے خطاب میں بھی اور عالمی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں میں بھی خلیج فارس اور مغربی ایشیا میں قیام امن کا مسئلہ اٹھایا اور اس سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔دوسری طرف امریکا کی اشتعال انگیزیاں ہیں جن کا مقصد خطے کو بحران کے حوالے کردینا ہے۔
امریکا کے معروف سیاسی مبصر پروفیسر ڈینس ایٹلر نے ان اہداف کی نشاندھی کی ہے جو امریکا خلیج فارس میں نام نہاد سمندری اتحاد قائم کرکے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا در اصل اس اتحاد کے نام پر خلیج فارس میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی افواج کا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے ۔
پروفیسر ڈینس ایٹلر نے کہا ہے کہ خلیج فارس کے لئے ہر سیکورٹی فارمولے کی ایران سمیت اس خطے کے سبھی ملکوں کی حمایت اور اقوام متحدہ سے اس کی توثیق ضروری ہے۔اس خطے میں سیکورٹی کے لئے ہر قسم کی یک جہتی کی امریکا کی جانب سے مخالفت کی سب سے بڑی وجہ اس کا تسلط پسندانہ اور غیر قانونی سامراجی مفاد ہے جو اس خطے میں بحران اور بد امنی سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔
اس تعلق سے دوحہ اجلاس میں ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کا بیان قابل غور ہے ۔انھوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ دو ہزار چودہ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان، دنیا میں فروخت ہونے والے ایک چوتھائی اسلحے اس خطے کے ملکوں نے خریدے ہیں اور ان ہتھیاروں کا بڑا حصہ امریکا نے بیچا ہے۔