Feb ۱۵, ۲۰۲۰ ۰۶:۳۹ Asia/Tehran
  • شامی فوج کی پیشرفت سے اردوغان کے دل کی دھڑکنیں کیوں تیز ہونے لگیں؟ (دوسرا حصہ)

رای الیوم کے چیف ایڈیٹر اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ وہ بحران شام کے حل کے لئے آستانہ اور سوچی میں ہوئے معاہدوں کا ذکر کر رہے تھے۔ اردوغان کا کہنا تھا کہ آستانہ مذاکراتی عمل اب جاری نہيں رہ سکتا۔ ادلب میں ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ روس ادلب میں بمباری بند کرے، نہيں تو ہم ضروری اقدامات کریں گے۔

شامی افواج نے اب تک صوبہ ادلب کے بہت سے علاقوں کو آزاد کراکے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ یاد رہے کہ صوبہ ادلب شام میں دہشت گردوں کا آخری اہم گڑھ ہے۔ مغربی حلب کے علاقوں اور مشرقی لاذقیہ کے بعد ادلب کو دہشت گردوں سے آزاد کرالئے جانے کی صورت میں ، شام میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کا کام پورا ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ 2011 سے بحران شام کے آغاز سے ہی اردوغان نے شام کے شمال مشرقی علاقے پر للچائی ہوئی نظریں لگا رکھی تھیں، لیکن جیسے جیسے جنگ میں دہشت گرد گروہوں کو شکست اور شامی فوج کو کامیابیاں حاصل ہوئیں، اردوغان نے بھی موقف بدل دیا اور وہ شامی حکومت کے حامی روس اور ایران کے نزدیک ہوتے چلے گئے۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے دعوی کیا کہ ادلب میں ان کے فوجیوں کو کوئی نقصان پہنچا تو سوچی معاہدے کی کوئی پرواہ کئے بغیر ہر جگہ شامی فوجیوں پر حملے کئے جائیں گے۔ ترک صدر کے اس جارحانہ بیان کے ساتھ ہی بعض رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ درجنوں ٹینکوں اور سو سے زائد بکتر بند اور عام فوجیوں گاڑیوں پر مشتمل دو ترک فوجی کاررواں دمشق حکومت کی مرضی کے خلاف شام میں داخل ہوکے ادلب کی جانب روانہ ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ ترک فوج نے مسلح کرد ملیشیا کے افراد کا مقابلہ کرنے کے بہانے دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر بارہ دیدبانی کے فوجی مراکز شام کے اندر قائم کررکھے ہیں اور ادلب میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔

اکتوبر 2019 میں کرد جنگجوؤں کے خاتمے کے بہانے ترکی نے شمال مشرقی شام میں اپنی فوجیں تعینات کر دیں اور سیف زون کے قیام کے بہانے شام کے سرحدی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

دسمبر میں جب سے شامی فوج نے روس کی فضائیہ کی مدد سے شمال مشرقی علاقوں میں آپریشن کا آغاز کیا ہے، اردوغان کی پریشانیاں بڑھنے لگی ہیں۔

اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ رجب طیب اردوغان کو یہ بات اچھی طرح پتہ ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے بعد شامی فوج اپنی سرحدوں میں موجود ترک فوجیوں کی چیک پوسٹوں اور چوکیوں کا رخ کرے گی اور ان کا قدیمی خواب ایک پھر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

ادلب میں جاری شامی فوج کے آپریشن کو روکنے کے لئے ترک حکام نے روسی حکام کے ساتھ متعدد نشستیں کی ہیں۔ ان نشستوں میں انہوں نے جنگ بندی کی بھی دہائی دی لیکن ماسکو اور دمشق، انقرہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی نرمی کے لئے تیار نہيں ہیں۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

*سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*

ٹیگس