عراق کے عبوری وزیراعظم نے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا مطالبہ کردیا
Mar ۰۳, ۲۰۲۰ ۱۶:۳۶ Asia/Tehran
عراق میں نامزد وزیر اعظم محمد توفیق علاوی کے استعفے کے بعد صدر برہم صالح نے نئے وزیر اعظم کے انتخابات کے لئے مشورتیں تیز کردی ہیں۔اس دوران کارگزار وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
نامزد وزیر اعظم محمد توفیق علاوی کے استعفے کے بعد، عراق کے عبوری وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کے لیے ضروری قانونی سازی کرے۔ انہوں نے پارلیمنٹ سے رواں سال چار دسمبر کو پارلیمانی انتخابات کرائے جانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عبوری وزیراعظم کے عہدے پر مزید کام کرنے سے معذور ہیں۔
دوسری جانب عراقی صدر برھم صالح نے محمد توفیق علاوی کی جگہ نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ صلاح و مشورے کا عمل شروع کردیا ہے۔
عراقی ذرائع کا کہنا ہے صدر برھم صالح نے سید عمار حکیم، نوری المالکی، ہادی العامری اور حیدر العبادی جیسے سرکردہ سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کی ہے جس میں نئے وزیراعظم کی تقرری کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
عراق میں گزشتہ سال اکتوبر میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔معاشی اور سماجی مشکلات اور بدعنوانیوں کے خلاف شروع ہونے والے یہ مظاہرے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد شکل اختیار کرگئے تھے۔
عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے مظاہروں کے پرتشدد شکل اختیار کرجانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یکم دسمبر کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا اور جب سے اب تک وہ ملک کے عبوری وزیر اعظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
سیاسی اتار چڑھاؤ اور متعدد افراد کے نام سامنے آنے کے بعد آخر کار عراق کے صدر برھم صالح نے یکم فروری دوہزار بیس کو سینیئر سیاستدان محمد توفیق علاوی کو ملک کا نیا وزیراعظم نامزد کیا تھا۔ تاہم ایک ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود محمد توفیق علاوی کابینہ کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہوسکے اور گزشتہ روز (اتوار کو) انہوں نے اپنا استعفی صدر کو پیش کردیا۔
عراق میں پچھلے ایک ہفتے کی تبدیلوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک جانب یہ ملک اپنی آزادی کے سو سال مکمل ہونے کے باوجود آج تک سامراج کی چھوڑی ہوئی باقیات کا خمیازہ بھگت رہا ہے تو دوسری جانب پچھلے پانچ ماہ سے جاری بدامنی اور پرتشدد واقعات کے باوجود، اس ملک کی سیاسی جماعتیں فرقہ وارانہ مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہی ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عراق کی سیاسی جماعتیں اوردھڑے حالات کی سنگینی کو محسوس کیے بغیر قومی مفادات سے نظریں چرا رہے ہیں۔ محمد توفیق علاوی نے صدر برھم صالح کے نام اپنے استعفے میں بھی بعض سیاسی دھڑوں کی جانب سے قومی مفادات کے بجائے اپنے اپنے پارٹی مفادات حتی ذاتی مفادات تکمیل کے لیے ان پر ڈالے جانے والے دباؤ کا ذکر کیا ہے۔
کابینہ کی تشکیل میں محمد توفیق علاوی کی ناکامی کے بعد عراق کی سڑکوں پر مظاہرین کی واپسی اور تشدد واقعات پھر سے شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے البتہ اس تفاوت کے ساتھ کہ چند ماہ قبل تک دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح عراق میں بھی کورونا وائرس نے موت کا ناچ شروع نہیں کیا تھا۔