عراق میں اقتدار کا خلا کون پر کرے گا؟ / مقالہ
عراق کے نامزد وزیراعظم کے استعفے اور عبوری وزیراعظم کی جانب سے کام جاری رکھنے سے انکار کے بعد سیاسی بحران نئے مرحلے میں داخل ہوگيا ہے۔
عراق میں اقتدار کا خلا کون پر کرے گا؟
تحریر: عظیم سبزواری
...............
عراق کے نامزد وزیراعظم کے استعفے اور عبوری وزیراعظم کی جانب سے کام جاری رکھنے سے انکار کے بعد سیاسی بحران نئے مرحلے میں داخل ہوگيا ہے۔
عراق میں سیاسی بحران کا آغاز گزشتہ سال اکتوبر میں اس وقت ہوا تھا جب معاشی اور اقتصادی بدحالی اور بدعنوانیوں کے خلاف کئی ماہ تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے استعفی دے دیا تھا۔
دو ماہ کی سیاسی کشمکش کے بعد عراقی صدر نے یکم فروری کو محمد توفیق علاوی کو وزیراعظم نامزد کیا تھا لیکن وہ ایک ماہ کی قانونی مدت میں کابینہ کی تشکیل اور پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور آخر کار صدر کو استعفی پیش کرکے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
دوسری جانب عبوری وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے بھی صدر برہم صالح کے نام ایک مراسلے میں رضاکارانہ طور پر ملک کا انتظام چلانے سے معذرت کرلی ہے اور ان سے کہا کہ وہ ان کے کسی معاون یا وزیر کو مملکت کے ضروری امور چلانے کے لیے مقرر کردیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ آئين کے مطابق میرے عبوری عہدے کی مدت دو مارچ کو ختم ہوگئی ہے اور میں نے پہلے ہی اعلان کردیا کہ میں نئے وزیراعظم کی تقرری اور کابینہ کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی تیس روز ہ قانونی مہلت ختم ہونے کے بعد ایک دن بھی اقتدار میں نہیں رہوں گا۔
عادل عبدالمہدی کے مطابق عبوری انتظام کے ذریعے ملک کو موجودہ بحران سے نکالا نہیں جاسکتا لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا وقت آن پہنچا ہے۔
انہوں نے اپنے خط میں چار دسمبر کو قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ سے کہا کہ بہترین راستہ یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کو آئين اور قانون کے مطابق سلجھا لیا جائے۔
نامزد وزیراعظم محمد توفیق علاوی نے جنہیں دوماہ کی سیاسی رسہ کشی کے بعد یکم فروری کو کابینہ کی تشکیل کی ذمہ داری سوپنی گئي تھی، سیاسی جماعتوں کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتوں کو عوام سے کیے گئے اصلاحات کے وعدوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی دھڑے قومی مفادات کے بجائے پارٹی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں اور انہوں نے بقول ان کے ملک میں نئی اور غیر جانبدار حکومت کے قیام کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
عراق کے آئین کے تحت صدر کا عہدہ محض رسمی مانا جاتا ہے لہذا عبوری وزیراعظم کی جانب سے کام جاری رکھنے سے معذرت اور نامزد وزیراعظم کے استعفے کی بعد عراق میں اقتدار کا شدید خلا پیدا ہوگیا ہے جو کم از کم نئے وزیراعظم کی تقرری تک جاری رہے گا۔
ادھر اطلاعات کے مطابق صدر برہم صالح نے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ صلاح و مشورے کا عمل تیز کردیا ہے اور سینئر سیاستدان سید عمار حکیم، سابق وزرائے اعظم نوری المالکی اور حیدر العبادی سمیت متعدد رہنماؤں سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
قانون کے مطابق عراقی صدر کو آئندہ پندر دن کے اندر نئے وزیراعظم کو نامزد کرنا ہوگا اور یہ معاملہ آئندہ دو ہفتے تک عراق کے سیاسی اور قومی رہنماؤں کے درمیان بحث و مباحثے کا اہم ترین موضوع بنا رہے گا۔