عراق میں نئی امریکی سازش! (مقالہ)
تصور کریں کہ عراق میں مستقل حکومت موجود نہیں، عادل عبد المہدی کا مینڈیٹ ختم ہوچکا ہے وہ ایڈہاک کی بنیاد پر ضروری انتظام چلا رہے ہیں، عوامی رضاکار فورس کی چھاؤنیوں پر امریکہ نے قبضہ کرلیا ہے، دہشت گرد گروہ داعش اور دوسرے مسلح جھتے عراق میں سرگرم ہیں اور امریکہ کے حمایت یافتہ بعض گروپ بھی میدان میں اتر آئے ہیں اور عراق شدید قسم کی بد امنی اور افراتفری کا شکار ہے...
عراق میں نئی امریکی سازش !!
تحریر: عظیم سبزواری
.....
عراقی رہنما اور عوامی رضاکار فورس سے وابستہ مختلف دھڑے تواتر کے ساتھ ملک میں امریکہ کی تازہ نقل و حرکت کے بارے میں سخت خبردار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اندرون عراق امریکی فوجی سیٹ اپ میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ اتفاقی نہیں بلکہ کسی بڑے سازشی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔
گزشتہ دنوں سابق عراقی اسپیکر اور اہلسنت سیاسی رہنما محمود المشہدانی اور عراقی پارلیمنٹ کے دفاعی کمیشن کے رکن کریم علیوی نے کھل کر یہ بات کہی تھی کہ امریکہ ان کے ملک میں فوجی بغاوت کرانے کی سازش تیار کر رہا ہے ۔
محمود المشہدانی کے بقول امریکہ صرف عراقی حکومت ہی نہیں، بلکہ پورے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے شورش کی سازش میں مصروف ہے جبکہ عراقی پارلیمنٹ کے دفاعی کمیشن کے رکن کریم علیوی نے متحدہ عرب امارات میں امریکہ کی حالیہ فوجی مشقوں کو معنی خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاتینی امریکہ کے ملکوں کی طرح، اس علاقے میں فوجی بغاوتیں کرانا امریکہ کے لیے ہر گز آسان نہیں ہوگا۔
اس سے پہلے عراقی پارلیمنٹ کے الصادقون نامی دھڑے کے رکن محمد البلداوی نے مقامی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ امریکہ عراق کے تین صوبوں میں داعش کے خفیہ جتھوں کو دوبارہ فعال بنانے میں مصروف ہے۔
البتہ یہ پہلی بار نہیں جب عراقی ذرائع نے ملک میں شورش اور بغاوت کے معاملے کو اٹھایا ہو۔ امریکہ نے اس سے پہلے سن دوہزار دس سے دوہزار چودہ کے عرصے میں اس وقت کے وزیر اعظم نوری المالکی کے خلاف بھی بغاوت کا منصوبہ تیار کیا تھا جسے عراقی حکام اور عوام نے اپنی ہوشیاری سے ناکام بنادیا تھا۔
کہا یہ جارہا ہے کہ امریکہ کورونا کی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق میں بغاوت کی غرض سے عوامی رضاکار فوس کی چھاؤنیوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والی حالیہ امریکی فوجی مشقیں بھی اسی سازش کا حصہ تھیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق 23 مارچ کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والی امریکی فوجی مشقوں کے لیے صحرائی علاقے میں ایک ایسا فرضی شہر بسایا گيا تھا جو بالکل عراقی شہروں اور خاص طور سے دارالحکومت بغداد سے ملتا جلتا ہے۔ ان مشقوں میں متحدہ عرب امارات کی فوج کے علاوہ تین ایسے عراقی مسلح گروپ بھی شریک تھے جن کا اس ملک کی مسلح افواج یا سیکورٹی اداروں سے کوئی تعلق نہیں۔ مشقوں کے دوران اونچی عمارتوں، مساجد اور مقدس مقامات پر ہیلی بورن یا چھاتہ بردار فوج اتارنے کے علاوہ، اسٹریٹ فائٹنگ اور بکتر بند گاڑیوں کو آبی راستوں سے گزارنے کے عمل پر زیادہ توجہ دی گئي۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں اس جانب بھی اشارہ کیا گيا ہے کہ ان مشقوں میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے اہلکار بھی، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے ساتھ شریک تھے۔
یہ مشقیں ایسے وقت میں انجام دی گئيں جب امریکی فوجی حکام نے کورونا وائرس کے پیش نظر دنیا بھر میں فوجیں مشقیں منسوخ کردی ہیں اور امریکہ نے بغداد اور اربیل میں قائم اپنے سفارت خانے اور کونسلیٹ کے کارکنوں کو عراق سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔
امریکہ نے عراق میں اپنے بعض فوجی اڈے بھی خالی کر دیئے جبکہ اس کے اتحادی ملکوں نے بھی عراق سے اپنے فوجیوں کو قبل از وقت باہر نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی دوران اطلاعات ہیں کہ امریکہ کی سرکردگي میں قائم نام نہاد داعش مخالف عالمی اتحاد میں شامل غیر ملکی فوجیوں نے کرکوک کے قریب قائم مشہور K 1 نامی فوجی اڈہ خالی کر دیا ہے۔ داعش مخالف نام نہاد عالمی اتحاد اس سے پہلے القیارہ اور القائم جیسے فوجی اڈوں کو بھی خالی کر چکا ہے۔
ایسی بھی اطلاعات ہیں سامنے آئی ہیں کہ امریکہ عر اق میں اپنے سفارت خانے کو بغداد کے گرین زون سے صوبہ الانبار میں قائم سب سے بڑے فوجی اڈے عین الا سد منتقل کرنا چاہتا ہے۔ عراقی ذرائع کے مطابق قرائن و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عین الاسد چھاؤنی میں سفارت خانے کی منتقلی کا فیصلہ اس تناظر میں کیا جارہا ہے کہ یہ چھاؤنی عراق میں امریکہ کی سب سے بڑی اور محفوظ چھاؤنی ہے اور امریکی طیارے اور ڈرون چوبیس گھنٹے اس علاقے پر پرواز کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ اسے پیٹریاٹ میزائل سے حال ہی میں لیس کیا گيا ہے۔
کیا یہ سارے اقدامات عراق اور اس خطے کے خلاف کسی بڑے سازشی منصوبے کا حصہ ہیں؟ امریکہ جیوپولیٹک وجوہات کی بنا پر، عراق کے تیل، ایران پر دباؤ بڑھانے اورعراق کو مزاحمتی محاذ سے الگ کرنے اور عظیم مشرق وسطیٰ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے، عراق میں طویل عرصے تک رہنا چاہتا ہے۔ حالانکہ داعش کے خاتمے کے بعد عراق میں غیر ملکی فوجیوں کے باقی رہنے کی کوئی وجہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔
دوسرے عراقی پارلیمنٹ بھی امریکہ سمیت غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی قرارداد پاس کرچکی ہے جس پر جلد یا دیر بہر حال عملدرآمد ہوگا اور امریکہ کو عراق سے نکلنا ہی پڑے گا۔ ایسا ہوتا ہے تو یہ خطے میں امریکی پالیسیوں کی ایک اور شکست ہوگی۔ بنا برایں یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ امریکہ صورتحال کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے عراق میں سیاسی عدم استحکام اور سلامتی کے مسائل پیدا کرنے کی سازش پر عمل کر رہا ہو ۔
سیاسی مبصرین کے مطابق امریکہ نے اس سازش کے پہلے مرحلے پر چند ماہ قبل عملدرآمد شروع کیا تھا جس کے تحت عراق میں بظاہر بدعنوانیوں کے خلاف ہونے والے پر تشدد عوامی مظاہروں کے بعد منتخب وزیر اعظم کو استعفے پر مجبور ہونا پڑا۔ عادل عبد المہدی کے استعفے کے بعد امریکہ نے عراق کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا نیا کھیل شروع کیا جس سے پیدا ہونے والی مشکلات کے سبب سیاسی تعطل تا حال ختم نہیں ہو سکا ہے۔
دوسرے مرحلے میں بغداد میں ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس کو شہید کر کے اپنی سازشوں کے مقابلے میں عوامی قوتوں کو موبلائز کرنے کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عراق میں بغاوت کا روایتی طریقہ، کار گر ثابت ہوسکتا ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے اور امریکہ بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے۔ البتہ عوامی رضاکار فورس کی چھاؤنیوں کو نشانہ بنا کے، دہشت گرد گروہوں اور اپنے حامی دوسرے مسلح گروہوں کو پھر سے منظم کر کے عراق کو خانہ جنگي کی جانب ضرور دھکیلا جاسکتا ہے، کیونکہ امریکیوں کے خیال میں عراقی فوج ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ اس صورتحال کا مقابلہ کر سکے۔
تصور کریں کہ عراق میں مستقل حکومت موجود نہیں، عادل عبد المہدی کا مینڈیٹ ختم ہوچکا ہے وہ ایڈہاک کی بنیاد پر ضروری انتظام چلا رہے ہیں، عوامی رضاکار فورس کی چھاؤنیوں پر امریکہ نے قبضہ کرلیا ہے، دہشت گرد گروہ داعش اور دوسرے مسلح جھتے عراق میں سرگرم ہیں اور امریکہ کے حمایت یافتہ بعض گروپ بھی میدان میں اتر آئے ہیں اور عراق شدید قسم کی بد امنی اور افراتفری کا شکار ہے۔
ایسی صورت میں امریکہ سامنے آئے گا اور عراق میں امن و امان کے قیام کے نام پر، باقی ماندہ عوامی مزاحمتی دھڑوں کو جو اس کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے راستے سے ہٹا کر، اپنے اہداف تک پہنچ جائے گا۔ تو اس انداز میں امریکہ کا ناپاک منصوبہ مکمل ہونے کا امکان ہے۔ لیکن امریکہ کے لیے اس سازش کی تکمیل اور تمام اہداف کا حصول اتنا آسان نہیں ہوگا۔ بلکہ مجوزہ امریکی سازش کی ناکامی کے امکانات زیادہ قوی دکھائی دے رہے ہیں۔
البتہ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا کی عالمگيریت اور اس کے امریکہ کے اندر سرایت کر جانے کے پیش نظر ٹرمپ انتظامیہ اور امر یکی فوج کے لیے فی الوقت عراق اور علاقے میں کسی نئی آویزش کی سکت نہیں ہے اور عراق سے مزید امریکی فوجیوں اور دیگر اہلکاروں کے انخلا کی توقع کی جارہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس وقت امریکی فضائیہ کے اہلکاروں سمیت تین سو کے قریب امریکی فوجی بھی کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور جو جنگ ویتنام کے بعد امریکہ کو پہنچنے والا سب بڑا خسارہ ہے۔ اندریں حالات اگر امریکہ نے کوئی نئی مہم شروع کی تو اس پر شدید عالمی رد عمل سامنے آئے گا۔