شام کے خلاف معاشی دباؤ کیوں ناکام رہا؟ جانیے اہم وجوہات
شام کے خلاف امریکا کا ایک نیا قانون سترہ جون سے نافذ ہونے والا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شام اس بحران کو بھی بآسانی حل کر لے گا۔
دو سال قبل شام کے صدر نے اپنے ملک میں فوجی حالات کے پرامن ہونے کے دوران، شام کے سامنے موجود بحرانوں کی دستہ بندی کرتے ہوئے دشمن کے معاشی اور ابلاغیاتی حملوں کی طرف سے خاص طور پر متنبہ کیا تھا اور اس سلسلے میں تیاری پر تاکید کی تھی۔ ان کے اس انتباہ کو دو سال گزرنے کے بعد آج یہ بات پوری طرح سے عیاں ہو گئي ہے کہ دشمن نے شام میں فوجی میدان میں ناکامی کے بعد میڈیا وار اور معاشی دباؤ کے محاذ پر فتح حاصل کرنے کو اپنے ایجنڈے میں سر فہرست قرار دے دیا ہے۔
سامراجی میڈیا اس وقت شام میں لوگوں کی معاشی حالت پر ہونے والے تھوڑے بہت اعتراضات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے اور شام کے اعلی حکام کے خاندانی مسائل کو سیاسی مسائل بنا کر پیش کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے کہ شام کے اتحادیوں نے اسے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ شام کے خلاف امریکا کے نئے قانون سے شام کے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں مبالغہ آمیز تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شام کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا وار کا آغاز ہو گيا ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ شام کے اتحادیوں نے اس کا ساتھ قطعی نہیں چھوڑا ہے اور کورونا کے شدید پھیلاؤ کے دوران بھی ایران اور شام کے حکام ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ روس کے صدر پوتین نے شام کے امور میں اپنے ایک براہ راست نمائندے کو متعین کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اور مضبوط ہوئے ہیں۔ جہاں تک امریکا کے نئے قانون کی بات ہے تو شام کی معیشت پر جو کچھ اثر ہونا تھا وہ ہو چکا ہے اور اب مزید کوئي خاص اثر پڑنے والا نہیں ہے۔
شام نے آٹھ سال تک جنگ اور پابندیوں کے دوران یہ دکھا دیا ہے کہ وہ طاقت کے اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ اپنے مستقبل اور سیاسی خود مختاری کی حفاظت کر سکتا ہے۔ بنابریں نفسیاتی اور معاشی دباؤ، شام کی قوم اور حکومت کے عزم پر کوئي گہرا اثر نہیں ڈال سکتا کیونکہ ایک طرف تو اس کے دشمن، شام میں عدم استحکام پیدا کرنے والے بنیادی عنصر کی حیثیت سے دہشت گردوں کی افادیت کی طرف سے مایوس ہو چکے ہیں اور دوسری طرف انھیں یہ بھی یقین ہو گيا ہے کہ شام کے عوام، طویل عرصے تک معاشی دباؤ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔