مراکش امریکہ اور اسرائیل کی بلیک میلنگ کا شکار
مراکش کے مذہبی حلقوں نے حکومت کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔
مراکش کے مذہبی حلقوں نے حکومت کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل اور امریکہ کی بلیک میلنگ اور سمجھوتا قرار دیا ہے۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت مغربی صحرا کے معاملے میں امریکہ اور اسرائیل کی بلیک میلنگ کا شکار ہوئی ہے، یہ ایک سیاسی سودے بازی ہے، جس کا حکومت کی طرف سے ارتکاب کیا گیا۔
مراکش کی علما کونسل کے چیئرمین شیخ ریسون نے ایک بیان میں کہا کہ مغربی صحرا ایک حقیقت ہے، جس کی تاریخ اور جغرافیا مغربی صحرا سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، یہ علاقہ اسپین کے تسلط میں رہا ہے، اس کی اپنی ایک سیاسی اور قانونی حیثیت ہے جسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین بھی مغربی صحرا کی طرح غیر ملکیوں کے تسلط میں ہے، پہلے اس علاقے پر برطانوی استبداد نے غاصبانہ قبضہ جمایا اور اب اسے عالمی ڈاکوؤں صہیونیوں کے تسلط میں دے دیا گیا ہے۔
ریسونی نے مزید کہا کہ امریکہ کی طرف سے دباؤ اور دھونس کے ذریعے مراکش کو اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے پر مجبور کرنا سیاسی چال بازی، بلیک میلنگ اور دھوکا دہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے مراکش کو ایک ایسے ملک کے ساتھ تعلقات کے قیام پر مجبور کیا ہے، جس کا کوئی آئینی اور قانونی وجود نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 10 دسمبر 2020ء کو عرب اسرائیل منصوبے کے ترجمان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی کوششوں سے مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بدلے میں امریکہ نے مغربی صحرا پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کیا ہے۔